بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن میرپور کے میٹرک کے نتائج 205

بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن میرپور کے میٹرک کے نتائج

بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن میرپور کے میٹرک کے نتائج

باغ آزاد کشمیر(رپورٹ:ذوالقرنین حیدر )ہم بیٹیاں، قوموں کی عزت ہم سے ہےبورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن میرپور کے میٹرک کے نتائج
ریڈ فاونڈیشن کے باغ میں قائم سکولوں میں زیر تعلیم، ارم اعجازِ بھاٹا سنگڑھ 1072 نمبر ضلع باغ پہلی اور بورڈ میں 11ویں پوزیشن، علشبا جاوید ملوٹ 1069 نمبر بورڈ میں 14ویں پوزیشن، فاخرہ صادق ہاڑی گہل 1068 نمبر بورڈ میں 15ویں پوزیشن، سمیرا منصور ہاڑی گہل 1065 نمبر بورڈ میں 17ویں پوزیشن اور عروہ ذوالفقار ہاڑی گہل نے 1063 نمبر لیکر بورڈ میں 20ویں پوزیشن حاصل کی ہے، ان قابل فخر بیٹیوں میں بعض ایسی بھی ہیں جن کے تعلیمی اخراجات بھی ریڈ فاونڈیشن نے اپنے زمہ لے رکھے ہیںمیں اپنی اور اہل باغ کی طرف سے قوم کی ان باہمت بیٹیوں کو ڈھیروں مبارکباد پیش کرتا ہوں





اور اس میں سب سے اہم بات جو مشاہدہ میں آئی ہے کہ ریڈ کے اداروں میں سیکنڈری لیول تک زیادہ سے زیادہ ماہانہ فیس 750 کے لگ بھگ ہے،بتایا گیا ہے کہ ضلع باغ میں اس وقت ریڈ فاونڈیشن کے 32 کے قریب سکول ایسے ہیں جن میں سیکنڈری تک تعلیم دی جاتی ہے اور ان میں زیر تعلیم طلبہ کی تعداد 12094 ہے


ریڈ فاونڈیشن میں ٹیچر ٹریننگ کے حوالے سے بھی ایک موثر اور مربوط میکانزم موجود ہے مگر اساتذہ کی تنخواہوں میں گورنمنٹ سیکٹر سے تقابل کیا جائے تو زمین آسمان کا فرق ہے اور پھر کسی اچھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ٹیچر کو جب بھی کوئی مستقل ملازمت ملے تو کسی بھی وقت ریڈ کو چھوڑ کر ادھر چلا جاتا ہے اب آتے ہیں گورنمنٹ سیکٹر کی طرف جہاں سٹیٹ آف دی آرٹ عمارات بھاری بھر کم ڈگریاں، بھاری بھاری تنخواہ لمبی لمبی چھٹیاں اور ہر طرح کی سہولیات اور ریٹائرمنٹ کے بعد اچھی خاصی پنشن اور دیگر مراعات مگر “آفرین” ہے


کہ ٹاپ 20 میں شامل 64 طلباء میں ایک بھی گورنمنٹ سیکٹر سے نہیں یہ درست ہے کہ معدودے چند سکولوں کی عمارات ابھی تک نامکمل ہیں اور سٹاف بھی کم ہے مگر حیرت ہے کہ وہ نجی سیکٹر سے مقابلہ تو کجا اس دوڑ میں کہیں دور دور تک بھی نظر نہیں آتےہم زاتی طور پر نجی شعبہ خصوصاً ریڈ فاونڈیشن جیسے اداروں کے سخت ناقدین میں شامل رہے ہیں مگر اب کیا ہم بھی اس مطالبے میں شامل ہو جائیں کہ تعلیم و صحت کے ادارے نجی شعبے کے حوالے کر دیئے جائیں یا پھر سرکاری اداروں میں سزا و جزا کا کوئی موثر طریقہ کار بھی نافذ ہو سکے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں