کون بے جا مداخلت کر سکتا ہے ! 54

بکھر جائیں گے توہی تماشا ختم ہو گا !

بکھر جائیں گے توہی تماشا ختم ہو گا !

ایک ماںجس طرح اپنے بچوں کے لیے سب کچھ قربان کر دیتی ہے ،اس طرح سے ہی ریاست کا بھی فرض بنتا ہے کہ اپنے عوام کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دے، لیکن ہمارے ہاں اْلٹا ہی دستور رہاہے کہ عوام کیلئے قر بانی دینے کے بجائے اپنے لیے عوام کو ہی قربان کیا جارہا ہے،اس ملک میں کون سا بڑا طبقہ اور ادارہ ایساہے

،جو کہ عوام کا خون نہیں چوس رہاہے، ابھی کل ہی سوئی گیس کی قیمتوں میں 155 فیصد اضافہ کرنے کا فیصلہ کیاگیا اور آج پیٹرول کی قیمت میں 9روپے66پیسے اضافہ کر دیا گیا ہے، یہ اتحادی حکومت اپنے ہی عوام پر ایسا ظلم کیوں کررہی ہے،کیو نکہ عوام کی حمایت سے آئے ہیں نہ ہی عوام ان کی تر جیحات میں شامل ہیں ،یہ جن کی حمایت سے آئے ہیں ،اُن کا ہی ایجنڈا پوراکرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
یہ اتحادی حکومت پہلے بھی عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کے بڑے دعوئے کے ساتھ آئی تھی ،مگر اپنے سولہ ماہ کے دور اقتدار میں ماسوائے عوام پر مہنگائی کا انتہائی بوجھ ڈالنے کے کچھ کر پائی نہ ہی ملک کو بحرانوں سے نکال پائی ،اُلٹا ملک کو معاشی بد حالی کی دلدل میں دھکیل دیا ، اس آزمائی قیادت کو ہی ایک بار پھر آزمایا جارہا ہے اور توقع رکھی جارہی ہے کہ ریاست بچائیں گے ،ملک کو معاشی دلدل سے نکالیں گے

اور عوام میں خوشحالی لائیں گے ، جبکہ اتحادی آتے ہی آئی ایم ایف کے سامنے سجدہ ریز ہو کر قر ض پر قرض ہی لینے میں لگے ہوئے ہیں ، اگر اتحادی حکومت کے پاس آئی ایم ایف کے پلان لینے کے علاوہ کوئی پلان نہیں ہے تو پھر عوام کو آئی ایم ایف کی غلامی میں ہی جاناں ہو گا اور اُن کے پلان کا سارا بوجھ بھی اُٹھانا ہو گا ۔
یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ ہر دور حکومت میں عوام ہی آئی ایم ایف کی غلامی میں دھکیلا جارہا ہے ،عوام پر ہی قر ض کاسارا بوجھ ڈالا جارہا ہے، آئی ایم ایف کا بھی قر ض پالان میں پہلا ہی مطالبہ ہوتا ہے کہ وہ چیزیں زیادہ مہنگی کی جائیں کہ جن کا تعلق براہ راست عام عوام سے ہے، عوام سے مراد عام آدمی، مزدور طبقہ شامل ہوتا ہے، اس لیے آئی ایم ایف اپنی کلاس اشرافیہ کا خیال رکھتے ہوئے

براہ راست عوام کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہے اور دوسرا اْن کو پتہ ہے کہ عام عوام ہی دن رات محنت مزدوری کر کے ملک کے زر مبادلہ میں اضافہ کرتے ہیں،یہ گیس ، بجلی اور پیٹرول عام لوگ ہی ہر حال میں استعمال کرتے ہیں، ایک شہر سے دوسرے شہر محنت مزدوری کرنے کے لیے عام ٹرانسپورٹ کے ذریعے سفر کرتے ہیں، اس لیے ہی پٹر ولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جتنا زیادہ اضافہ ہو سکے کر دیا جاتا ہے

،عام لوگوں کو ہی قر بانی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔اس ملک کے آزمائے حکمرانوں کی غلط معاشی پالیسوں کی وجہ سے عوام سراپہ احتجاج ہیں،مگر اُن کی داد رسی کرنے والا کوئی ہے نہ ہی کوئی ایسا در نظر آتا ہے کہ جہاں فر یاد کی جائے ، یہاں انصاف دینے والے خود ہی انصاف مانگ رہے ہیں توپھر غریب کی سنوائی کہاں ہو گی ؟ غریب ایک وقت کی روٹی کیلئے ذلیل و خوار ہے اوراشرافیہ عیش کررہے ہیں، یہ درجنوں ایکڑ محلات میںرہنے والے عام لوگوں کی مشکلات کا اندازہ کر سکتے ہیں نہ ہی عوام کے حقیقی نمائندگی کا حق ادا کر سکتے ہیں ،

یہ عوام کے حقیقی نمائندے ہیں نہ ہی عوام کے مسائل کے تدارک کی اہلیت رکھتے ہیں ،یہ صرف نمائشی بیانات ونمائشی اعلانات کر سکتے ہیں ، ان کے بیانیہ اور اعلانیہ کی عوام میں کو ئی پذآرائی ہے نہ ہی عوام ان پر یقین کرتے ہیں ، عوام کو جب بھی موقع ملا ،انہیں پہلے سے زیادہ مسترد کر یں گے ۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ ایک طرف اتحادی حکومت سیاست نہیں ،ریاست بچانے کی دعوئیدار ہے تو دوسری جانب حکومتی وزیر خواجہ آصف کہتے ہیں کہ ریاست کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے عوام کو ہی قربانی دینا ہو گی ،یہ اتحادی جب بھی آتے ہیں ، ملک کے ڈیفالٹ ہونے اور ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے دعوئے کرتے ہیں ،لیکن ملک ابھی تک ڈیفالٹ کے کنارے پر ہی چلا جارہا ہے ، یہ اتحادی جس طرح ڈیفالٹ کی آڑ میں عوام پر ظلم و جبرروا رکھے جارہے ہیں اور جس طرح سے بجلی گیس اور تیل کی قیمتوں میں نا قابل برداشت اضافہ کیے جارہے ہیں،

اِس پر مجبور ہو کر عوام کو ایک بارسڑکوں پر نکلنا ہی پڑے گا، عوام سڑکوں پر نکلے تو ملک میں زبردست انار کی پھیل سکتی ہے، اگر چہ ہمارے حکمران اور اشرافیہ نے ا پنے دفاع میں بہت سارے اقدامات کررکھے ہیں لیکن یہ بھول رہے ہیں کہ اِن کی حکمرانی و اختیارت اور سارے اقدامات تب تک ہی چلیں گے، جب تک کہ عوام ظلم و جبربر خاموشی سے داشت کرتے رہیں گے ،اس ظلم و جبر کو سہنے کی سکت جس دن بالکل جواب دیے گئی اور اس کے کلاف عوام اُٹھ کھڑے ہوئے تو اْس دن حکمران رہیں گے نہ ہی ان کی حکمرانی رہے گی،اس حوالے سے معروف شاعرافتخار عارف نے کیا خوب کہا ہے کہ۔۔
بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہو گا
مرے معبود آخر کب تماشا ختم ہو گا
دل نا مطمیٔن ایسا بھی کیا ما یوس رہنا
جو خلق اُٹھی تو سب کر تب تماشا ختم ہو گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں