46

رسول امن ﷺ بحیثیت معلم

رسول امن ﷺ بحیثیت معلم

تحریر:کومل شہزادی
قرآن مجید اللہ کا کلام ہے جو اس کے آخری نبی محمد رسول ﷺ پر انسانیت
کی ہدایت کے لئے اتارا گیا ہے ۔نبی کریمﷺ کی پوری حیات طیبہ معلمانہ انداز
کے ساتھ تعلیم اور تعلم کی بلند مثال اور اعلیٰ ترین اسوہ حسنہ ہے۔آپﷺ
نے بنی نوع انسان کو جہالت کے اندھیروں سے نکالا۔ہرقدم پر اور ہر معاملے میں
تعلیم ارشاد فرمائی ۔آپﷺ کی تعلیم قرآن وحدیث میں جگمگا رہی
ہے۔رسول ﷺ قرآن ناطق ہیں۔ان کی تعلیم ان کے صحابہ کرام ﷺ کے دل و
دماغ میں یوں نقش ہوئی کہ ان کے صحابہ کرام کے شاگردوں اور مزید آگے کا
تسلسل کے ساتھ جاری ہے ۔نبی کریم ﷺ معلم اعظم ہیں انہیں کے نقش
قدم کی روشنی سے آج کے معاشرے استفادہ کررہے ہیں اور آنے والے وقتوں میں
بھی کرتے رہیں گے۔آپﷺ پوری انسانیت کے لئے ایک عظیم اور مثالی معلم بن
کر تشریف لائے ۔ایسے معلم جن کی تربیت نے محض تیئس برس کی مختصر
مدت میں نہ صرف جزیرہ عرب کی کایاپلٹ دی بلکہ پوری دنیا کے لیے رشد و
ہدایت کی وہ ابدی شمعیں بھی روشن کردیں جو رہتی انسانیت کو عدل و
انصاف ،امن وسکون اور عافیت و اطمینان کی راہ دکھاتی رہیں گی ۔قرآن
پاک کی آیات نے آپﷺ کو بطور معلم متعارف کرایا ہے ۔
سورۃآل عمران میں ارشاد ہے :
''اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں پر احسان فرمایا ہم نے ان کے اندر خود انہیں میں
سے ایک رسول مبعوث کیا جو
انہیں اس کی آیات پڑھ کرسناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے
اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور اس سے پہلے وہ صریح گمراہی
میں تھے۔''1

رسول امن ﷺ بحیثیت معلم کے اہم نکات درج ذیل ہیں۔
طریق تدریس اور اہل صفہ:
آپﷺ کی تعلیم کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپﷺ نے ابتدا ہی سے لوگوں
کی تربیت کے لئے ایک مرکز کی ضرورت محسوس کی جہاں لوگ جمع ہوں اور
اجتماعی طور پر ان کی تہذیب واصلاح کاکام ہوسکے۔جب تک دعوت کا سلسلہ
مخفی تھا۔آپﷺ نے حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کے گھر کو مرکز قرار دیا
تھا۔یہاں تمام اولین رفقاء جمع ہوتے کتاب کی تلاوت ہوتی اسے یاد کرتے اورر
بنیادی مسائل کے معاملے میں حضورﷺ سے رہنمائی حاصل کرتے پھر آپﷺ
کا اپنا گھر بھی مسلمانوں کا مرکز بن گیا جہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
جمع ہوکر اپنے عظیم معلم سے رہنمائی حاصل کرکے اپنے کام کاج میں مشغول
ہوجاتے۔وہ لوگ اپنے گھروں اور دکانوں وغیرہ میں بھی قرآن پاک کی تلاوت
کرتے اور آپﷺ سے سیکھے ہوئے اسباق ایک دوسرے کو سناتے رہتے۔مسجد
نبویﷺ کی تعمیر کے ساتھ ہی آپﷺ نے صفہ کا چبوترا بنوایا۔آپﷺ نے
مسجد کو ہی مسلمانوں کی روحانی ،علمی ،اجتماعی ،سیاسی غرض زندگی
کے تمام شعبوں کا مرکز بنادیا تھا۔اس کے ساتھ صفہ ایک اقامتی درسگاہ کی
حیثیت رکھتا تھا۔مسجد نبویﷺکے علاوہ مدینہ منورہ میں دیگر مساجد کا
بھی پتہ چلتا ہے،ان سب مساجد میں مسلمانوں کی تعلیم وتربیت کا بڑااہتمام
تھا۔
قرآن میں آنحضرت ﷺ کے متعلق ارشاد ہوا:
''بے شک رسول اللہ ﷺ کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔''2
آپ ﷺکا امثال کے ذریعے تدریس:
آپﷺ نے اپنی زندگی میں بہترین معلم ہونے کی ذمہ داری ادا کی اور اپنے
اردگرد آباد معاشرے میں اصلاح کا کارنامہ سرانجام دیا۔اور جو کچھ فرمایا اور

کیا اس پر ان کے پیروکاروں نے عمل کیا ۔زمین پر پیغمبروں کے مبعوث ہونے کا
سلسلہ تو حضرت محمد ﷺ پر پہنچ کر ختم ہوگیا لیکن آپﷺ کا مشن آج
بھی جاری ہے ۔آپﷺ کو جب تبلیغ دین کا حکم ہوا تو آپﷺ صفا کے پہاڑ
پر تشریف لے گئے اور لوگوں کو بلا کر ایک مثال کے ذریعے اپنی صداقت اور اللہ
کی توحید پر یقین کرنے کا واعظ اس طرح کیا کہ اے لوگو!اگر تمہیں یہ کہوں
کہ پہاڑی کی اس جانب ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم
مان لو گے؟ تو لوگوں نے کہا بلاشبہ ہم مان لیں گے ۔اس کے بعد آپ نے انہیں
اللہ کی واحدانیت کی تبلیغ کی ۔اسی طرح جب کفارمکہ نے آپ کے چچا کے
ذریعے دولت ،سرداری اور اعلیٰ خاندان میں شادی کی پیش کش کی تو
آپﷺ نے اس کو ایک مثال بیان کرکے یوں رد کیا کہ چچا اگر میرے ایک ہاتھ
پر چاند اور دوسرے پر سورج بھی لاکریہ لوگ رکھ دیں تب بھی میں دین الہیٰ
کی تبلیغ سے باز نہ آؤں گا ۔اللہ تعالیٰ نے منافقین کے اعمال وغیرہ کو ٹھوس
اور واضح مثالوں سے سمجھایا ہے تاکہ ان کے مفہوم کو مخاطبین کے ذہن میں
اچھی طرح سمویا جاسکے ۔قرآن کریم میں امثال بیان کرنے کی مثالیں دیکھئے:
''دنیاوی زندگی کی مثال ایک ایسی سرسبز کھیتی کی ہے جو ایک ہی حادثے

میں اجڑ جائے ۔''3

اسی طرح سورہ بقرہ میں منافقین کی مثال ایک ایسے شخص کی دی گئی
ہےکہ
''جس نے جنگل میں آگ جلائی جس سے اس کا ماحول روشن
ہوگیا اور جب آگ بجھ گئی تو پہلے
سے زیادہ اندھیرا ہوگیا ،جیسے اندھیری رات میں بجلی چمکنے سے
روشنی ہوگئی ،پھر تاریکی ہی تاریکی ۔''4
دلچسپی کا عنصر:

آپﷺ کی تعلیم کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ آپﷺ اسے اس طرح
جاری رکھتے کہ طالب علم اکتاہٹ محسوس نہ کرے۔آپﷺ دوران تعلیم
کوئی ہلکہ پھلکی بات پر مزاح کہہ دیتے جس سے دلچسپی برقرار رہتی ۔
آہستہ آہستہ بات کرنا:
آپ ﷺ تعلیم دیتے تو آہستہ آہستہ اور ٹھر ٹھر کر بات کرتے تاکہ سامع پوری
طرح بات کو سمجھ جائے ۔بعض اوقات آپﷺ اپنی بات کو تین بار دہراتے
تاکہ بات اچھی طرح سمجھ لی جائے اور یاد ہوجائے۔
آسانی:
آپﷺ کی ایک خصوصیت ''آسانی ''ہے ۔آپﷺ نے ہمیشہ آسانی کو پسند
فرمایا اور اس حکم کو اختیار کرنے کی تلقین فرمائی جس میں آسانی کا پہلو
غالب ہو ۔اس طرح آپﷺ جہالت یا عدم واقفیت کو ایک مرض سمجھتے اور
اس کے ازالے کی کوشش فرماتے ۔
طبیعت کا انکسار:
بطور معلم آپﷺ کی ایک خوبی انکسار اور تواضع بھی ہے ۔اگرچہ آپﷺ
کو اللہ تعالیٰ سے براہراست ہم کلام ہونے کا شرف حاصل تھا اور آپﷺ کو
اللہ تعالیٰ سے حقیقی علم عطا ہوا تھا ۔اس کے باوجود آپﷺ نے نہ کبھی
غرور کیا اور نہ تواضع کی روش کو چھوڑا۔آپﷺ وہ انداز اختیار فرماتے کہ
بات دل میں اتر جائے ۔
مناسب سوالات:
رسول پاک ﷺ تعلیم میں دلچسپی پیدا کرنے اور طلباء کو اپنی جانب متوجہ
کرنے کے لئے جہاں اور بہت سے طریقے اختیار فرماتے ،وہیں بعض اوقات مناسب
اور پرکشش سوال سے بھی ابتدا فرماتے جس سے ان کی پور ی توجہ آپﷺ
کی جانب مبذول ہوجاتی تھی۔

معلوم سے نامعلوم کی طرف سفر:
آپ ﷺ نے جب قریش کو توحید کی تبلیغ کرنا تھی تو انہی اکٹھا کرکے خطاب
کیا اسی طرح آپﷺ نے اہل قریش سے مخاطب ہوکر فرمایا جان لو اگر تم
ایک اللہ پرایمان نہ لائے تو آپ کو ایک درد ناک عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا ۔یہاں
آپﷺ نے اسی طریقہ تعلیم کا استعمال کیا ہے ۔آپﷺ نے قریش کو اس کے
پیشگی علم کی یاددہانی کراتے ہوئے انہیں ایک نئے نظریے سے آگاہ فرمایا ۔انہیں
اپنی سچائی کو قریش کے دلوں میں پہلے ہی راسخ کر چکے تھے بس انہیں
یاددہانی کی ضرورت تھی جو آپﷺ نے کرائی اور پھر ایسی بات کی جس
پر جھوٹ ہونے کا گمان نہ کرسکیں۔
حرفِ آخر:
پیغمبر حضرت محمد ﷺ انسانیت کے وہ عظیم اور بہترین معلم تھے جن کی
حق پر مبنی تعلیم نے عرب کے صحراؤںمیں بسنے والے بدؤوں کی زندگی میں
انقلاب برپا کردیا ۔معلم کی اہمیت کو خود آپﷺ نے یوں تذکرہ کیا:
(بے شک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ۔)

حوالہ جات:
1۔بحوالہ قرآن پاک ،سورہ آل عمران،آیت نمبر 159
2۔ایضا،سورہ الاحزاب ،آیت نمبر 21
3۔ایضا،سورہ یونس ،آیت نمبر 24
4۔ایضا ،سورہ بقرہ ،آیت نمبر 171

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں