ٹیکس نیٹ بڑھانا آسان نہیں ! 36

ٹیکس نیٹ بڑھانا آسان نہیں !

ٹیکس نیٹ بڑھانا آسان نہیں !

اس ملک میں تاجر برادری کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے بہت ساری سکیم متعارف کرائی جاتی ر ہیں،لیکن کامیاب نہیں ہو پائی ہیں ، اتحادی حکومت بھی بہت ساری سکیم لارہی ہے ،اس میںایک تاجر دوست اسکیم بھی متعارف کرائی گئی ہے،اس کے تحت ان کی رجسٹریشن یکم اپریل سے جاری ہے اور اس کی آخری تاریخ تیس اپریل ہے،جبکہ ابھی تک صرف ایک سو پانچ افراد نے ہی رجسٹریشن کرائی ہے،اس کے پیش نظر تحفظات سامنے آرہے ہیں، کیا یہ اسکیم کامیاب ہو پائے گی ؟یہ تاجر دوست سکیم کیسے کا میاب ہو سکتی ہے ،جبکہ اسے ناکام بنانے والے ہی لانے والوں کے ساتھ بیٹھے ہیں ۔
ہر دور حکومت میں آئی ایم ایف کے مجبور کر نے پر بہت ساری سکیم ضرور لائی جاتی ر ہیں ، لیکن اس میں سے کوئی ایک سکیم بھی کا میاب نہیں ہوپائی ہے ، اس کی ایک وجہ تاجروں سے مشاورت کا نہ ہو نا ہے تو دوسری وجہ اسے ناکام بنانے والوں کا ساتھ ہو نا رہا ہے ، اس ملک میں لاکھ کوشش کے باوجود کاروباری کمپنیاں رجسٹرڈ نہیں ہو پائیں تو ٹیکس نیٹ میں کیسے لائی جائیں گی ،یہاں کوئی اپنا کاروبار رجسٹرڈ کرنا چا ہتاہے

نہ ہی ٹیکس نیٹ میں آنا چاہتا ہے ، اگر کوئی حکومت سنجیدگی دکھانے کی کوشش کرتی ہے تو اس کے حواری ہی آڑے آجاتے ہیں ، اس لیے ہر حکومت ڈنگ ٹپائو پروگرام کے تحت یک بعد دیگرے سکیم لا کرعالمی مالیاتی اداروں کی شر ئط پوری کر دیتی ہے ،مگر اپنی سکیم کو کامیاب بنانے کی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کرتی ہے ۔
اس بار بھی ایسا ہی کچھ ہو رہا ہے ، ایک بار پھر تاجر برادری کی مشاورت کے بغیر ہی جہاں انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کے پلان بنائے جارہے ہیں ،وہیں دوسری جانب رجسٹریشن کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہ آنے پر مختلف آپشنز پر غور کیا جار ہا ہے، غیر فعال ٹیکس دہندگان کی فہرست ختم کر کے ان پر غیر رجسٹرڈ ہونے پر دس سے پندرہ فیصدایڈوانس ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا جارہا ہے،36 لاکھ پرچون فروشوں کا تعاقب کرنے کے بجائے غیر رجسٹرڈ کاروبار کو ناقابل عمل بنانے کی حکمت عملی بنائی جا رہی ہے،لیکن اس حکومت کی ہر حکمت عملی تبھی کامیاب ہو گی کہ جب زبردست انتظامی اقدامات کئے جائیں گے، اس کے بغیر ٹیکس قوانین جتنے مر ضی تبدیل کر لیے جائیں ، جتنے مرضی پلان پر پلان بنا لیے جائیں،حکومت کے کسی ٹیکس نیٹ پالان کی کامیابی دکھائی نہیں دیے رہی ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ٹیکس کے بغیر کوئی ملک چل سکتا ہے نہ ہی خو شحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے ، لیکن جب تک ٹیکس لگانے والے خود بھی ٹیکس نیٹ میںنہیںآ ئیںگے ، پورا ٹیکس نہیں دیں گے توٹیکس نیٹ کو کیسے فروغ دیا جاسکتا ہے ، اس ملک میں سب سے بڑے ٹیکس نادہندگان پار لیمان میں بیٹھے ہیں اور غیر رجسٹرڈ کاروباری بھی حکومت کے حواریوں میں شامل ہیں ، یہ سب کچھ اقتدار سے جانے والے وزیر خزانہ بتاتے ہیں اور اقتدار میں رہنے والے وزیر خزانہ مانے کیلئے تیار نہیں ہیں

، اس سچائی کو چھپانے کے بجائے مانا پڑے گا اور ان بڑے مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالنا ہی پڑے گا ، یہ بڑے بڑے کاروباری عام لوگ نہیں ہیں کہ ان کی غیر رجسٹرڈ کمپنیاں آسانی سے رجسٹرڈ کرلی جائیں اور انہیں ٹیکس نیٹ میں آسانی سے لایا جا سکے ، ایف بی آر کا بس صرف عام چھوٹے پرچون فروش اور دوکاندار پر ہی چلتا ہے اور اس کے ذریعے ہی اپنی سکیم کامیاب بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے عام تاثر ہے کہ جو کام دو دہائیوںسے بھی زیادہ مدت میں نہیں ہو پایا ہے، وہ اب کیوں کر ہو پائے گا؟ لیکن بہت سوں کو امید ہے کہ ایسا ممکن ہو جائے گا،کیو نکہ میاں شہباز کی سیاسی مجبوریاں سابق حکمرانوں کی نسبت بہت ہی کم ہیں،اس حکومت کے فیصلے پیچھے بیٹھے لوگ کررہے ہیں اور وہی ان پر عمل در آمد بھی کروارہے ہیں ، اس کے باوجود جب بڑے صنعتکاروں پر ’ہاتھ ڈالا جائے گاتو اس شعبے میں موجود سیاسی لابی آڑے ضرور آ ئے گئی،احتجاج ہو گا ، ہڑتالیں کی جائیں گے ،

نوٹس جلائے جائیں گے اور ایک بار پھر تاجر برادری سے مل بیٹھ کر کوئی در میانی راستہ نکالنا ہی پڑے گا ، حکومت اور اس کے سر پرستوں کو پیچھے ہٹنا ہی پڑے گا،ایسا ہی کچھ پہلے ہوتا رہا ہے اور اس بار بھی ایسا ہی کچھ ہو نے والا ہے ، اس چوبیس کروڑ کے ملک میںچوبیس لاکھ عام لوگ ہی ٹیکس دیتے رہے ہیں اور آئند ان میں کچھ لاکھ کا مزید ضافہ کیا جاسکتا ہے ،لیکن اس کیلئے گورننس کے خراب معاملات درست کرنا ہوں گے ،اس میں معمولی بہتری بھی بہت نمایاں فرق لا سکتی ہے اور میاں شہباز شریف کو بس یہ معمولی سی بہتری لانی ہے،جو کہ کچھ ایسی ناممکن بھی نہیںہے، اس لیے کوئی پنگا‘ ٹھیک نہیں، کیو نکہ یہ پنگا ،حکومت کے گلے پڑسکتا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں