کسان فصل کی اُجرت سے محرروم رہے گا ! 38

غیر جمہوری رویئے سے جمہوریت کو نقصان نہ پہنچائیں !

غیر جمہوری رویئے سے جمہوریت کو نقصان نہ پہنچائیں !

تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد ارکان کو سنی اتحاد میں شامل ہوئے عرصہ ہو گیا ہے،لیکن اس شمولیت کوتسلیم کر نے کا خیا ل الیکشن کمیشن کو اب جاکر آیا ہے،اس الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد پارلیمان میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی تعداد 120 ،پی پی کی نشستیں 71اور سنی اتحاد کونسل ارکان کی تعداد 82 ہوگئی ہے

ا،لیکشن کمیشن کے مطابق مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت ہے،سنی اتحاد کونسل قومی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت، جبکہ پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں تیسرے نمبر پر ہے، لیکن اس طرح الیکشن کمیشن کے ذریعے بنوائی گئی ترتیب کوئی مانے گانہ ہی ملک میںسیاسی استحکام آپائے گا۔
اگردیکھاجائے تو ملکی تاریخ میںپہلی بار الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر حکومت اور اپوزیشن میں شامل تمام ہی جماعتیں دھاندلی اور جانبداری کے الزامات لگا رہی ہیں، تحریک انصاف کو الیکشن سے پہلے جس طرح انتخابی عمل سے باہر رکھنے کی کوشش کی گئی اورالیکشن کے بعد اسکے حمائت یافتہ امیدواروں کے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے باوجود اس کو مخصوص نشستوں سے محروم رکھا گیا،

اس مخاصمانہ رویے پر ملکی اور غیر ملکی مبصرین سنگین تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں،یہاں تک کہ کے پی کے سے سینٹ انتخابات بھی عدالتی حکم کے باعث ملتوی کرنا پڑے ،اس سے نا صرف پارلیمان نا مکمل ہے، بلکہ حکومت اور اپوزیشن میں سیاسی ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام میں بھی اضافہ ہورہا ہے ،جو کہ شدید معاشی سماجی اور آئینی مسائل کا سبب بن رہا ہے۔
یہ بات سب ہی جانتے ہیں اور مانتے ہیں ، لیکن الیکشن کمیشن ماننے کیلئے تیار نہیں ہے کہ ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت سب کچھ ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی ایساہی ہو تا رہے گا ، اس لیے ہی بعض حلقوں میں تاثر یقین کی حدتک قائم ہوچکاہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں فاصلوں اور تنائو کی وجہ سیاسی جماعتوں کے بجائے الیکشن کمیشن کے رویہ کا زیادہ عمل دخل رہا ہے، اگر الیکشن کمیشن فیصلہ سازی میں آئین و قانون کی پاسداری کرتا اور دوغلی پالیسی نہ اپناتا تو حالات مختلف ہو تے ، لیکن الیکشن کمیشن دیئے گئے

ایجنڈے پر ہی گامزن ہے اور اس کے تحت ہی فیصلے کررہا ہے اور اس کے تحت ہی فیصلے تبدیل ہورہے ہیں ،الیکشن کمیشن جب تک اپوزیشن کی چھینی جانے والی سیٹیں اور مخصوص نشستیں واپس نہیں کر ے گا ، اس ملک کے سیاسی تنائو میںکمی آئے گی نہ ہی ملک سیاسی استحکام کی جانب بڑھ پائے گا۔
اس ملک میں سیاسی استحکام کیسے آسکتا ہے ،جبکہ ایک طرف الیکشن کمیشن کا مخاصمانہ رویہ ہے تو دوسری جانب عوام مخالف فیصلے کے تحت اقتدار میں آنے والے بھی اُن کا ساتھ دیے رہے ہیں ، حزب اقتدار اجہاں اپنے مفادات سمیٹے جا رہی ہے ،وہیں زبانی کلامی مفاہمت کا راگ بھی آلا نپے جارہی ہے ، ایوان بالا میں مسلم لیگی رہنما عرفان صدیقی مفاہمت و مکالمے کی باتیں کرتے ہیں اورپارلیمان سے باہر مسلم لیگ( ن) کے خواجہ سعد رفیق اور پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی تنقید کے نشتر چلاتے ہیں،

اپوزیشن مخالف بیانیہ دہراتے ہیں ، یہ حزب اقتدار قیادت اپوزیشن کو دوغلی سیاست کی تانہ زنی کرتے ہوئے زرابھی نہیں سوچتے ہیں کہ خو د کتنی دوغلی پا لیسی پر گامزن ہیں ، یہ اقتدار میں کس کے سہارے آئے اور کس کے سہارے چل رہے ہیں ، یہ ہر کوئی جانتا ہے ، اس کے باوجود بڑی ہی ڈھٹائی سے اپوزیشن سے کہا جارہا ہے کہ مقتدراہ سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں ، اپوزیشن مقتدراہ سے بات نہ کرے تو کیا اس حکومت سے کرے جوکہ اُن کے ہی سہارے چل رہی ہے۔
اس خواب غفلت سے اتحادی حکومت کو اب باہر نکل آنا چاہئے کہ عوام بے خبر ہیں اور کچھ نہیں جانتے ہیں،

عوام انتہائی باشعور ہیں اور سب کچھ جانتے ہیں ، اس کا اظہار عوام نے انتخابات میں اپنے راہے دہی سے کر دیا ہے ، عوام کے فیصلے کو بدل دینے سے زمینی حقائق بدلیں گے نہ ہی کسی آزمائے بیانیہ سے عوام کی رائے بدلی جاسکتی ہے ، عوام اب کسی بہکا ئوئے اور بہلائوئے میں آنے والے نہیں ہیں ،عوام کی حمایت عوام کے فیصلے مان کر ہی حاصل کی جاسکتی ہے ، اس بارے حکومت کے ساتھ الیکشن کمیشن کو بھی سوچنا ہو گا

اور اپنی سوچ کے ساتھ اپنے روئیوں کو بھی بدلنا ہو گا ، ہرغیر جمہوری رویئے کو ترک کر نا ہو گا ، ایک دوسرے کے تھلے سے بلاِنکالنے کے بجائے ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا ہو گا،حکومت کو سنجیدگی سے اپوزیشن کی جانب اپنا ہاتھ بڑھانا ہو گا اور الیکشن کمیشن کو بھی اپنے غلط فیصلوں کو خود ہی درست کرنا ہو گا ، تبھی سیاسی تنائو میں کمی آئے گی اورملک سیاسی و معاشی استحکام کی جانب بڑھ پائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں