72

پانی۔ دو بوندپانی

پانی۔ دو بوندپانی

جمہور کی آواز
ایم سرور صدیقی
کہتے ہیں جب دنیا میں کچھ نہ تھا پانی تھا اور جب کچھ نہیں ہوگا تب بھی پانی ہی ہوگا پانی زندگی کی علامت ہے اورقدرت کا بیش قیمت تحفہ بھی جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ کرہ ٔ ارض پر ایک حصہ خشکی اور تین حصے پانی ہے اور خشکی کے نیچے بھی پانی ۔۔سوچنے کی بات ہے اللہ نے پانی کو کتنی فضیلت عطا کردی آب ِ زم زم کو بھی پانی بنا دیا اس کے باوجود لوگوں کی قسمت کا کیا کیجئے اقوام ِ متحدہ، عالمی ادارہ صحت اور نہ جانے کون کون سے اداروں کی حکمت ِ عملیاں،ایفی شنسیاں اور پھر حکومتوں کے اقدامات، کھربوں کے منصوبے، بلند بانگ دعوے پھر بھی دنیاکی بیشترآبادی کو پینے کا صاف پانی میسرہی نہیں یا کسی کو سرے سے پانی ہی دستیاب نہیں۔ یہ کتنے مزے کی بات ہے

کہ پانی کا اپنا کوئی رنگ نہیں ہوتا اس کو جس سانچے ڈالو ڈھل جاتاہے،،جس رنگ میںچاہو رنگ لو۔جو زورآور چاہے دوسروں کا پانی بند کردے پانی کی طرف سے کوئی مزاحمت کوئی احتجاج نہیں۔۔ دنیا کے زیادہ تر انسانوںکو پینے کے صاف پانی کے حصول کیلئے بہت تردد کرناپڑتاہے اربوں کھربوں روپے ہرسال صاف پانی کے نام پر ہڑپ کرلئے جاتے ہیں محض بنگلہ دیش، نیپال،برما ،بھارت، خلیجی ممالک ،افریقہ پرہی موقوف نہیں دنیا میں ہر جگہ ایسے ہی ہوتاہے فرق یہ ہے کہ نو آبادیاتی ریاستوںاور ممالک میں اشرافیہ کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ایک اور بات پاکستان میں تھرپارکر، جہلم ، مری ، ایبٹ آبادکے مضافاتی علاقے،چولستان اورکشمیر کی کئی آبادیوں میں لوگوںکو یہ پانی بھی میسر نہیں ہے

بعض مقامات پر خواتین اور بچے کئی کئی میل دور پیدل چل کر اپنے گھروں میں پینے کیلئے پانی لاتے ہیں خشک سالی سے ہر سال سینکڑوں افراد اور لاکھوں جانوربلک بلک اور تڑپ تڑپ کر بھوکے پیاسے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں یہی حال بھارت کے دور دراز کے علاقوں،بنگلہ دیش کی زیادہ آبادی ،افریقی ممالک کے وسیع و عریض جنگلوں،صحرائوں اور آبادیوں کی حالت انتہائی ابترہے ،خلیج ،عرب ممالک اور اس سے جڑے ملکوں میں پینے کا پانی انتہائی کمیاب ہے امیر عرب ممالک میں تو پینے کاپانی امپورٹ کیا جاتاہے

باقی رہے مسائل کے مارے غریب ملکوں کے باشندے انہیں جو پانی مل جائے انہی سے اپنی پیاس بجھاکر خداکا شکرادا کرتے ہیں کیونکہپانی بقائے زندگی ہے، اس سے ذہنی و جسمانی سکون اور امن جڑا ہے، اسی لئے امسال پانی کے عالمی دن کا موضوع ’’واٹر فار پیس‘‘ رکھا گیا ہے ماہرین نے واضح وارننگ دی ہے کہ دنیا میںآئندہ جنگیں پانی پر ہوں گی اس سے حالات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتاہے لیکن ہمیں اس کا ادراک ہی نہیں بھارت دریائوں اور بڑ ی بڑی نہروںپر ڈیم پر ڈیم بناکر نہ صرف آبی ذخائر محفوظ بنارہاہے اس کے برعکس پاکستان کے دریا خشک ہورہے ہیں اور حکمرانوںکے پاس اس حوالے سے کوئی منصوبہ یا پروگرام نہیں ہے ایک قابل ِ عمل ڈیم بناکر پاکستان کی ضروریات کو کما حقہـ‘ پورا کیا جاسکتا تھا بدقسمتی سے کالاباغ ڈیم سیاسی اختلافات کا شکار ہوگیاہے یہ ڈیم بن جاتا تو پاکستان کو ذرخیز بنایا جاسکتا تھا بہرحال اب پانی کی قلت سے بچنے اور اس کا ضیاع روکنے کیلئے ہمیں جدیدطور طریقے اپنانا ہوں گے قومی مفاہمت کے لئے اپنارویہ اور ترجیحات بدلنا ہوں گی

خوش قسمتی سے پاکستان میں پانی کے ذخائر زیادہ ہیں معمول سے زیادہ بارشوں کے باعث ان میں کمی واقع نہیں ہو رہی بلکہ ہم زیادہ ہورہے ہیں اس کے باوجود تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی پانی کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے اس پر توجہ دینے کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے آبی ذخائر کے حوالے سے پاکستان خوش قسمت ملک تصور کیا جاسکتاہے دنیامیںصرف 16 ممالک کا پانی ہم سے زیادہ ہے، لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح 160 فٹ کے قریب ہے، گزشتہ چند برسوں میں پانی کی سطح کی گرواٹ میں کمی آئی ہے،

لاہور میں بی آر بی نہر کا پانی صاف کرنے کا پلانٹ نصب کرنے کا ایک منصوبہ زیر ِغور ہے پانی کے مسئلے کا حل کفایت اور اعتدال میں ہے آج بھی ہم صاف پانی سے گلیاں،کاریں اور گھر دھوتے ہیں، چھت پر پانی چھڑک کر تپش کم کی جاتی ہے، موٹر سائیکل ،گاڑی، صحن دھونے کیلئے بھی پانی کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے لہٰذا ہمیں اپنے طور طریقے بدلنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان حقائق کی روشنی میں سب کو احساس ہونا چاہیے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں صاف پانی کی صورتحال حوصلہ افزاء نہیں،

بدقسمتی سے پاکستان میں 21 فیصد افراد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں کہیں ایسا نہ ہو آئندہ برسوں میں پاکستان کا شمار پانی کی قلت والے ممالک میں ہو سکتا ہے اسی لئے پاکستان میں پانی کی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہوسکتی ہے، پاکستان کا شمار دنیا کے ان دس ممالک میں ہے جو ماحولیاتی مسائل کا انتہائی شکار ہیں ، پنجاب ملک کا سب بڑا صوبہ ہے مگر ہمارے پاس ماحولیاتی پالیسی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں پانی کے بے دریغ استعمال کو روکنے کے لئے کوئی قانون موجود ہی نہیں ہے۔ اگر اسی طرح زیر زمین پانی کو ٹیوب ویل اور موٹر کے ذریعے نکالا جاتا رہا تو آنے والے 25 برسوں میں ہم پینے کے پانی کیلئے ترس رہے ہوں گے

ہر سال سیلاب سے نہ صرف لاکھوں شہری متاثر، ہزاروںجانور سینکڑوں افراد ہلاک ہوجاتے ہیں اربوں کھربوں کا مالی نقصان الگ ہوتا ہے کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں اس صورت ِ حال سے بچنے کے لئے مستقل پالیسیاں مرتب کرنا ہوگی جو علاقے سیلاب کی زد میں آتے ہیں وہاں نہریں، تالاب اور زیر زمین کنویں بنانے کی شدید ضرورت ہے تاکہ نہ صرف نقصان سے بچا جاسکے بلکہ پانی کو محفوظ بنا کر اسے کارآمد بنایا جاسکے کیونکہ تھرپارکر اور چولستان میں شدید گرمی کے باعث ہزاروں افراد دو بوند پانی کے لئے ترستے ہیں حکمرانوںکو اس کااحساس کرناہوگا کیونکہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے حکمران عوام کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک تو نہ کرے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں