اس بار عوام ہی سب پر بھاری ہے ! 61

حکومت کب تک چلے گی !

حکومت کب تک چلے گی !

اتحادی حکومت قائم ہو گئی ہے ،لیکن یہ کیسے چلے گی ، اس حکومت کو چلا نے کیلئے کار کر دگی دکھانا ہو گی ،اگر حکومت ایسا کچھ کر لیتی ہے تو عوام کی حمایت حاصل کر لے گی اور اس کی سیاسی بنیاد کو تقویت بھی مل جائے گی ، لیکن اگر حکومت اپنے ہی مخالفین کے خلاف جابرانہ ریاستی طاقت اور یکطرفہ پروپیگنڈا کا استعما کرکے خود کو محفوط بنانے کی کوشش ہی کرتی رہی تو اس سے نہ صرف سیاسی تصادم بڑھے گا ،بلکہ حکومت بھی زیادہ دیر چل نہیں پائے گی ، اتحادی حکومت اپنی کار کر دگی بہتر بنا کراور عام آدمی کے مسائل حل کرکے ہی اپنا مستقبل محفوظ بناسکتی ہے۔
اس ملک میں جب بھی کوئی اقتدار میں آرہا ہوتا ہے تو اس حوالے سے ہی بڑے بڑے دعوئے کر تا ہے کہ اُن کی تر جیحات میں ملک وعوام کے مسائل ہوں گے ، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ساری ہی تر جیحات بدل جاتی ہیں ، عوام کے بجائے ذاتی مفادات آجاتے ہیں ،اپنے اقتدار کا مستقبل محفوظ بنانا آجاتا ہے، لانے والوں کے ایجنڈے کی تکمیل آجاتی ہے ، اس سب میں عوام کا ایجنڈے پیچھے ہی رہ جاتا ہے ، اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہورہا ہے ،یہ ملک و جمہوریت بچانے کے نعرے لگاکر آنے والے خود کو ہی بچانے میں لگے ہوئے ہیں

، کیو نکہ وہ جانتے ہیں کہ اُن میں ملک وعوام کو درپیش بحرانوں سے نکالے کی صلاحیت ہے نہ ہی ملک آگے لے جانے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔اس اتحادی حکومت کو اپوزیشن سے نہیں ، اپنے آپ سے ہی زیادہ خطرہ ہے ، یہ آزمائے تجر بہ کار لوگ ہیں ، مگر پچھلی بار ناکام رہے ہیں اور اس بار بھی کچھ زیادہ توقعاوابستہ نہیں کی جاسکتی ہیں ، کیو نکہ ان کے پاس کوئی نیا فار مولہ نہیں، سارے ہی آزمائے فار مولے ہیں

اورانہیں ہی ایک بار پھر آزما کر کو نسا نیا تیر چلایاجائے گا ، اگراتحادی حکومت پہلے کی ہی طرح خود کو بچانے کیلئے مشکل فیصلوں سے کتراتی رہی، معاشی مشکلات کو حل کرنے میں ناکام رہی، ٹیکس نیٹ نہ بڑھا سکی، کھربوں کا نقصان دینے والے قومی اداروں کی نجکاری نہ کر سکی اور معاشی بحران پر فوری قابو نہ پاسکی توپھر اتحادی حکومت اُوپر والوں کی حمایت کے باوجود زیادہ دیر تک چل نہیں پائے گی۔
یہ بات وزیراعظم کو معلوم ہے اور صدر بھی جانتے ہیں کہ اس بار نئی بننے والی کابینہ کی ناکامی کی صورت میں ہونے والانقصان کوئی برداشت نہیں کر ے گا،اس ملک کو جس انداز میں ماضی میں چلایا گیا، اْس طریقہ سے ہی چلنا اب ممکن نہیںرہا ہے،اس ملک میں آنے والے قرض پر قرض لے کر خود عیاشیاں کرتے رہے اور عوام کو قر بانی کا بکرا بنائے رکھا ہے ، عوام پر ہی سارا بوجھ اُٹھاتے آرہے ہیں ،لیکن اب ایسا کچھ نہیں چلے گا، حکمرانوں اور اشرافیہ کو اپنے اطوار بدلنا پڑیں گے ، اس کیلئے فیصلے بھی وزیر اعظم اوران کی نئی کابینہ کو ہی کرنا پڑیں گے اور خود کو ایک مثال بنا کر پیش کرنا پڑے گا

کہ عوام کے بجائے خود قر بانی دیں گے اور ملک و عوام پر کوئی غیر ضروری بوجھ نہیں ڈالیں گے ، لیکن اس بار بھی ایسا کچھ عملی طور پر ہوتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے۔یہ اس قوم کا المیہ رہا ہے کہ ان کے ہی مسترداہ لوگوںکے پاس پھر حکومت آجاتی ہے اور وہ ماسوائے احتجاج کچھ بھی نہیں کر پاتے ہیں ، کیا یہ آزمائے ایک بار مل کر آئی ایم ایف کے شکنجے سے ملک کو نکالنے کے لیے قلیل المیعاد اور طویل المیعاد منصوبہ نہیں بناسکتے ہیں،

میاں شہباز شریف جب بھی آتے ہیں،میثاق معیشت اور میثاق مفاہمت کے تصور پیش کرتے رہتے ہیں،کیا میثاق معیشت اور میثاق مفاہمت کا مطلب ہے کہ ایک دوسرے کے سیاسی و مالی مفادات کا تحفظ کیا جائے اور اقتدار کی مل کر باریاں لی جائیں،یہ حقائق عوام جان چکے ہیں کہ اس میثاق کے بیانیہ کی آڑ میں ملک کا خزانہ خالی ہوگیا ،لیکن حکمرانی کرنے والی قیادت مالا مال اور عوام بے حال ہے۔
اس اتحادی حکومت کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس وقت مہنگائی اپنے عروج پر ہے، غریب تو کیا مڈل کلاس لوگوں کا جینا بھی حرام ہوگیا ہے،وہ بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں مزید اضافے کو برداشت نہیں کرسکتے، اگر اس حکومت نے بوجھ امیر طبقات کی طرف منتقل کرکے معیشت کو سنبھالا دیا اور پرائیویٹائزیشن اور سرمایہ کاری میں اضافے جیسے اقدامات میں کامیاب ہوئے تو پھر اس اتحادی حکومت مین شامل ساری جماعتیں امر ہوجائے گی، لیکن اگر ایسا کرنے میں ناکام رہے اور حسب سابق قرضوں پر قرض لے کر غریب عوام پر مزید بوجھ ڈال کر کام چلانے کی کو شش کی گئی تو پھر ان میں سے کسی کا کوئی نام لیوا بھی نہیں رہے گا اور اتحادی حکومت ان کی آخری حکومت ہی ثابت ہو گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں