184

رِم جِھم برستی برکھا

رِم جِھم برستی برکھا

بقلم: محمد آصف سلطانی
آخر کار خدا خدا کر کے گرمی کا زور ٹوٹا اور دھیرے دھیرے سیاہ بادل پورے آسمان پہ چھا گئے پہلے پہل تو زمین نے بارش کے ایک قطرے کا استقبال کیا پھر یکے بعد دیر جل تھل ایک ہوگیا زمیں پر موجود ہر ایک جاندار و بے جان چیز کے چہرے خوشی کِھل اُٹھے ہر طرف رونق ہی رونق تھی’ موسمِ برسات کا لطف یا تو آپ بارش میں بھیگ کر لیتے ہوں گے یا بالکونی میں بیٹھ کر گرتی ہوئی بوندوں اور چمک دار آسمان کو دیکھ کر بہرحال بارش کا خوبصورت موسم ہر کسی کو پسند ہے وہ چاہیے انسان ہوں

یا پرندے سورج کا بادلوں کیساتھ آنکھ مچولی کھیلنا کبھی دھوپ کبھی چھاو?ں قوس و قزح کے رنگوں کا افق پہ بکھرنا کبھی رِم جِھم برستی بوندوں کا مٹی کو مہکانا تو کبھی موسلا دھار بارش کا دن رات برسنا، کبھی بادلوں کا گرجنا اور کبھی ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے۔ اور بلخصوص سرسبز وادیوں میں ایک عجیب اور دل کو چھو لینے والا سماں ہوتا ہے بارش کے بعد پانی کا شور پرندوں کی چہچاہٹ ٹھنڈی ہوا

اور وادی میں نیچے تک پھیلے سفید بادل اپنا منظر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ بارش کا موسم کتنا حسین خوشگوار دلکش اور سُہانا ہوتا ہے جب ہر چیز نکھری، نکھری اور دُھلی دُھلی نظر آتی ہے اور چار سو چھایا سبزہ آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتا ہے۔ پتے ٹہنیاں، پھول، شاخیں ہوا میں لہراتی ہوئی ٹھنڈک بکیھرتی ہیں اور چار سو مٹی کی خوشبویں چھا جاتی ہے۔ یہ وہ موسم ہے جب نہ چاہتے ہوئے بھی نیند کا غلبہ طاری ہو جاتا ہے

اور دل بلاوجہ خوشی سے جھومنے لگتا ہے شور مچاتا پانی اور ٹپ ٹپ گرتی بوندیں ہلکی پھلکی موسیقی سے بھلی لگتی ہیں یہ نرم آواز کو لبھاتی ہے۔جیسا کہ نذیر بنارسی صآحب برسات کے منظر کو مدِنظر رکھ کے چند اشعار لکھتے ہیں کہ:

کتنی شرمیلی لجیلی ہے ہوا برسات کی
ملتی ہے ان کی ادا سے ہر ادا برسات کی

جانے کس مہیوال سے آتی ہے ملنے کے لیے
سوہنی گاتی ہوئی سوندھی ہوا برسات کی

اس کے گھر بھی تجھ کو آنا چاہئے تھا اے بہار
جس نے سب کے واسطے مانگی دعا برسات کی

اب کی بارش میں نہ رہ جائے کسی کے دل میں میل
سب کی گگری دھو کے بھر دے اے گھٹا برسات کی

دیکھیے کچھ ایسے بھی بیمار ہیں برسات کے
بوتلوں میں لے کے نکلے ہیں دوا برسات کی

جیب اپنی دیکھ کر موسم سے یاری کیجئے
اب کی مہنگی ہے بہت آب و ہوا برسات کی

بادلوں کی گھن گرج کو سن کے بچے کی طرح
چونک چونک اٹھتی ہے رہ رہ کر فضا برسات کی

راستے میں تم اگر بھیگے تو خفگی مجھ پہ کیوں
میرے منصف پہ خطا میری ہے یا برسات کی

ہم تو بارش میں کھلی چھت پر نہ سوئیں گے نذیرؔ
آپ تنہا اپنے سر لیجے بلا برسات کی

جب ربِ تعالیٰ اپنے بندوں پرندوں جانوروں کیلئے رحمت کی بارش برساتا ہے دیکھتے ہی دیکھتے سیاہ گھٹائیں چھا جاتی ہیں سورج کالے بادلوں کی چادر اوڑھ لیتا ہے ہوا میں ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے پھر اچانک بارش شروع ہو جاتی ہے اور اگر بارش کے ساتھ ساتھ ٹھنڈی تیز ہوا چل رہی ہو تو ہلکی پھلکی سردی کا احساس بھی ہوتا ہے۔

بچوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر جاتی ہے اور وہ گھروں سے نکل کر گلیوں میں کھیلتے نظر آتے ہیں بچے بارش میں نہاتے اور موج مستی کرتے ہیں۔ لوجی چمن زاروں اور باغوں میں بہار آگئی ہو جیسے۔ زردی کے رنگے ہوئے پتے کھیت کھلیان سر سبز وشاداب ہو جاتے ہیں کچھ دیر کی بارش کے بعد جب بادل چھٹ جاتے ہیں

بارش تھمتی ہے اور مطلع صاف ہوجاتا ہے تو قوس قزح نے آسمان پر اپنے رنگ بکھیر دیتی ہے فضا دھل کر صاف ہو جاتی ہے ہر طرف زندگی خوشگوار ہو جاتی ہے چشمے بہنے لگتے ہیں پرندے چہچانے لگتے ہیں کلیاں مسکرانے لگتیں اور ہر طرف سبزہ نظر آنے لگتا ہے۔ گاؤں میں بارشوں کی اپنی اہمیت اور سماں ہوتا ہے

۔ کسانوں کی فصلوں کا دارومدار بارشوں پر ہوتا ہے ان کی آنکھیں آسمان پر بادلوں کو تلاش کرتیں اور ہاتھ دعاؤں کیلئے بلند ہوتے لیکن جب فصلیں تیار ہونے کے قریب ہوتی ہیں تو بارش کی آمد ان کی آنکھوں میں تشویش کے ڈیرے جمالیتی ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے جس طرح کہانیوں میں جادوگر کی جان ایک طوطے میں ہوتی تھی

اسی طرح گاؤں کے کسانوں کی جان بارشوں میں تھی۔ کالی گھٹاؤں کو دیکھتے ہی لوگوں کا گھروں کی چھتوں پر آ جانا درختوں کی ٹہنیوں کا جھومنا تیز ہوا کا شور ایک خوبصورت اور عام سا منظر ہوتا ہے۔ ایسے میں بارش میں نہانا بچوں کا دل پسند مشغلہ ہوتا ہے خاص کر گاؤں میں بارش کے بعد کھیتوں میں جو رونق ہوتی ہے

ہر طرف صاف شفاف سبزہ ہی سبزہ نظر آتا ہے الغرض قدرتِ الٰہی کی عظیم نشانیوں میں سے ایک اہم نشانی آسمان سے بارش کا نزول ہے جو انسانوں کے علاوہ روئے زمین پر بسنے والی دیگر مخلوقات کی زندگی اور بقاء کا ایک اہم عنصر ہے، یہی بارش ہے جس سے مردہ زمین میں زندگی کے آثار نمودار ہوتے ہیں، اس سے لہلہاتے پودے اور انواع و اقسام کے درخت اُگتے ہیں، جسے چوپائے بھی کھاتے ہیں

اور اس کے پھل انسانوں کی غذا بنتے ہیں، ہر قسم کے اناج اور غلہ کی پیداوار اسی بارش کے سبب ہے، اگر ربِ تعالیٰ آسمان میں بارش کو روک لے تو کوئی طاقت نہیں جو آسمان سے بارش برسا سکے۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ غور و فکر کیلئے رب تعالیٰ نے اپنے ان انعامات کا ذکر فرمایا ہے تاکہ بندے قدرت کی ان نشانیوں میں غور کرکے ? کی معرفت حاصل کریں اور اس کے شکر گزار بن جائیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں