مسلمانوں کیخلاف واقعات اسلامو فوبیا کا ثبوت 260

نیب خود احتسابی کو بھی موثر بنائے!

نیب خود احتسابی کو بھی موثر بنائے!

تحریر:شاہد ندیم احمد
پاکستان میں نیب احتساب کا سب سے اہم ادارہ ہے، ہر ادارے میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں،اہل افراد ادارے کی نیک نامی، جبکہ نااہل افرادپورے ادارے کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں، تاہم اس سب کے باوجود اداروں سے اچھی کار کردگی کی ہی امید رکھی جاتی ہے۔ادارہ نیب کی عمومی شہرت ایک اچھے ادارے کی ہے، اس کے چیئرمین جاوید اقبال سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج ہیں جو بے لاگ احتساب کی بات کرتے ہیں اور اس کے لیے کوشاں بھی ہیں۔ نیب کی طرف سے جہاں بدعنوان لوگوں سے بڑی بڑی ریکوریاں کی جاتی ہیں، وہیں متاثرین کی دادرسی بھی کی جاتی ہے۔ نیب کے کڑے احتساب کی زد میں آنیوالوں کی طرف سے ان کے خلاف پراپیگنڈا بھی کیا جاتا ہے جو نیب کی کارکردگی اوراس کے عزم پر اثرانداز نہیں ہوتا،لیکن جب سپریم کورٹ کی طرف سے نیب کی بازپرس ہوتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ نیب میں بیٹھے افسران بڑے بڑے فراڈ کررہے ہیںتو پھرنیب کے کردار اور کارکردگی پر سوال اُٹھنے لگتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ انصاف پر مبنی احتساب کسی بھی جمہوری ملک اور ملکی اداروں کی طاقت کا باعث بنتا ہے، انصاف پر مبنی احتسابی نظام نہ صرف اہل اور اچھی شہرت کے حامل افراد کو سیاست کے میدان میں سامنے لاتا ہے، بلکہ لوگوں میں پبلک سروس کے شعبے میں آنے کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے ،لیکن ہمارے ہاں زیادہ تر احتسابی ادارے اور احتسابی عمل کو اپنے مضموم مقاصد کے لیے ہی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

انصاف مہیا کرنے والے ادارے انتظامیہ کے اشاروں پر ناچتے ہوئے جہاں اُن کی من مرضی کے فیصلے دیتے رہے ،وہیں احتساب کے ادارے کو چلانے والے خود اخلاق سے گری سرگرمیوں میں بھی ملوث پائے جاتے رہے ہیں،اس صورت حال کے تناظر میں معزز عدالتوں کو ریمارکس دیتے ہوئے کہنا پڑتاہے کہ نیب افسران بڑے فراڈ کر رہے ہیں اور چیئرمین نیب خاموش بیٹھے ہیں۔ادارہ نیب کی کا کردگی پر جب بھی کبھی سوال اُٹھائے جاتے ہیں تو چیئر مین نیب کبھی خاموش نہیں رہے، ہمیشہ ادارے کا بھر پوردفاع کرتے ہوئے جہاں کار کردگی واضح کرتے ہیں ،وہیں

ادارے میں ہونے والی کسی کوتاہی کے تدارک کا اعیادہ بھی کیا جاتا ہے،تاہم اگر معزز عدالت نے نیب افسران کے بڑے فراڈ میں ملوث ہونے کی نشاندہی کی ہے تو سر براہ نیب کیلئے لمحہ فکریہ ہے،کیو نکہ ملک میں احتساب کرنے والے ادارے کے اپنے لوگوں کا کردار سب سے زیادہ شفاف ہونا چاہیے ، ادارے کے اپنے ہی لوگ کرپشن اور بے ضابطگیوں میں ملوث پائے جائیں گے تو پھر احتسابی عمل تو بے معنی ہو کررہ جائے گا،اگر فرائض سے غفلت کے مرتکب افراد کی نشاندہی معزز عدلیہ کرتی ہے یا عام شہریوں کی جانب سے شکایات آتیں ہیںتو چیئرمین نیب کو خاموش رہنے کی بجائے ایسے لوگوں کے خلاف بلاتاخیر فوری محکمانہ کارروائی کرنی چاہئے ۔ادارہ نیب کے حوالے سے عوام میں پہلے ہی عام تاثرپایا جاتاہے

کہ نیب کرپٹ عناصر کے خلاف مقدمات بنانے، برسوں تک ملزمان کو حراست میں رکھنے، تحقیقات کرنے کے باوجود بھی عدالتوں سے ملزمان کو سزا نہیں ہو پاتی ہے، اس کی وجہ بھی ادارے میں کرپشن ہی سمجھی جاتی ہے،چیئرمین نیب کے ادارے کو کرپٹ عناصر سے پاک کرنے کے فیصلے کے باجود تین برس پہلے نیب کے دو افسران کو رشوت لینے کا الزام ثابت ہونے کے بعد نوکری سے برخاست کیا گیاتھا ،ملزمان نے اپنی برخاستگی کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کردی،اس پر عدالت نے نیب کو تین ماہ میں انکوائری مکمل کرنے کا حکم دیا تھا،لیکن نیب افسران نے اپنے پیٹی بھائیوں سے ہمدردی کرتے ہوئے تین برس تک ان بد عنوان افسروں کے خلاف انکوائری مکمل کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر گھپلا کیا گیا ،تاکہ کیس خراب ہو جائے اورمجرموں کو سزا سے بچایا جاسکے۔
بلا شبہ دوسرے اداروں کی طرح ادارہ نیب میں بھی کچھ کالی بھیڑیں ضرورموجود ہیں جو جان بوجھ کر بے ضابطگیوں کا حصہ بنتے ہیں ،ادارے میں موجودبے ضابطگیوں میں ملوث ایسے لوگ کسی رو رعایت کے حقدار نہیں،ایسے لوگ ہی دو اداروں کے مابین عدم اعتماد کا بھی سبب بنتے ہیں،چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ریماکس کے بعد ضروری ہو گیا ہے کہ چیئر مین نیب ادارے سے بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے ایک نئی حکمت عملی وضع کریں،نیب کی کارکردگی کی نگرانی کے بجائے نیب کے کلچر کو درست کرنے اور اس ادارے کی تنظیم نو کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں،

تاکہ لوٹی ہوئی دولت کی وصولی ہو، بدعنوان عناصر کا کڑا و شفاف احتساب ہو اور بد عنوانی کی حوصلہ شکنی کی جاسکے،ادارہ نیب کو خود احتسابی کے عمل کو موثر بنانے کے ساتھ زیر تفتیش مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانے پر بھی توجہ دینا ہو گی، تاکہ قومی ادارے کے بارے میں منفی تاثر زائل ہو ں اور بلا امتیاز احتساب ممکن ہو سکے،نیب کی جانب سے امید کی جانی چاہیے کہ سپریم کورٹ اور عوام پر اپنا اعتماد برقرار رکھنے کے لیے فوری اقدامات کرے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں