کیوں کہ میں سوچتا ہوں؟ 274

کیوں کہ میں سوچتا ہوں؟

کیوں کہ میں سوچتا ہوں؟

تحریر۔حمادرضا
سردیوں کی آج کل ٹھٹھرتی راتیں ہیں سرِ شام ہی دھند چار سو اپنا جال بننے لگتی ہے اندھیرا گہرے ہوتے ہی بھاپ اڑاتی کافی کا کپ ہاتھ میں پکڑ کر ٹیرس کا رخ کرتا ہوں روز کچھ نا کچھ زیرِ مطالعہ ضرور رہتا ہے گرم کافی موسم کی سردی اور کتاب کا ساتھ کسی محبوبہ کے ساتھ ڈیٹ پر جانے سے کہیں بھلا لگتا ہے کبھی کبھی کسی پھیری والے کی آواز سوچ کو منتشر کر دیتی ہے اکثر رات کے پہروں میں گرم انڈوں کی صدا لگاتے پھیری والے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ کیا مجبوری رہی ہو گی کے رات کے اس پہر انھیں رزق کے لیے نکلنا پڑ رہا ہے لوگ تو عموماً رات کو آرام کرتے ہیں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں پھر یہ نوجوان اس سخت موسم کی اذیت اٹھانے پر کیوں مجبور ہے

پھر میرا لاشعور میری روح کو کھینچ کر پھیری والے کے گھر تک پہنچا دیتا ہے ایک بوڑھی ماں ہے جو وقفے وقفے سے کھانسے جا رہی ہے چار چھوٹے بچے جو اتنی شدید سردی میں بھی بمشکل خود کو ڈھانپے ہوۓ ہیں بیلن سے روٹی پکاتی پھیری والے کی بیوی جس کی اداس آنکھوں میں بے شمار خواب ہیں جس کا یہ بھی دل کرتا ہے کہ اس کے بچے بھی کسی اچھے سکول میں تعلیم حاصل کریں اور انھیں اس کاٹ کھانے والی غربت سے ہمیشہ کے لیے نجات دلائیں مگر کیسے؟ یہ خیال کسی ناگ کی طرح مجھے ڈنکتا ہے ان انڈوں کی بکری سے تو روزانہ کی روکھی سوکھی بھی بمشکل پوری ہوتی ہے

پھر ایکدم اپنے ملک کے حکمرانوں کے بارے میں سوچتا ہوں جو وسیع و عریض محلات میں رہتے ہیں شاہانہ طرزِ زندگی گزارتے ہیں جن کے ودیشی نسل کے کتے ودیشی خوراک کھاتے ہیں اور میرے ملک کہ ایک غریب کے مقابلے میں ہزار گنا اچھی زندگی گزارتے ہیں جبکہ غریب اپنے من میں ہزاروں خواب لیے اپنی مزدوری کی تھکن سے نڈھال ہمیشہ کے لیے قبر میں جا اترتا ہے یہ سب کردار ہمارے آس پاس ہی موجود ہوتے ہیں

لیکن ہم بھی روایتی حکمرانوں کی طرح اپنی آنکھیں مؤد کر انھیں نظر انداز کر دیتے ہیں کبھی میری طرح آپ بھی ان لوگوں کی روح میں اتر کر دیکھیے آپ کو بھی ان کے خاموش دکھ ضرور نظر آئیں گے کاش ہمارے ملک میں ان پھیری والوں کی جگہہ صاحبِ استطاعت لوگ یا خاص طور پر حکمران طبقے کے نمائندگان پھیری لگاتے نظر آتے تو انھیں اندازہ ہوتا کہ کون کس حال میں ہے پھر شائد وہ اس کرب کو کسی حد تک محسوس کر پاتے

اس دنیا میں ہزاروں کردار ہزاروں کہانیاں ہیں جو خودکشی کرنے کی حد تک غربت کا نوحہ روتی نظر آتی ہیں ہمیں ان کی مدد کرنے کی ضرورت ہے ایسے لوگوں سے بلا وجہ چیزیں خریدیے ان کا حوصلہ بڑھائیے انھیں گلے لگائیے انھیں اپنے ہونے کا احساس دلائیے ورنہ یہ روزِ محشر کہیں آپ کی شکایت لگاتے نا نظر آیئں بقول شاعر
روزِ محشر خدا سے کہوں گا رحم کر سائیاں
میں تیرے ماننے والوں کو جھیل آیا ہوں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں