435

پناہ کا میٹھے مشروبات کے صحت اور معشیت پر ہونے والے مضر اثرات کے متعلق پارلیمنٹیرینز کے ساتھ سینسیٹائیزیشن سیشن

پناہ کا میٹھے مشروبات کے صحت اور معشیت پر ہونے والے مضر اثرات کے متعلق پارلیمنٹیرینز کے ساتھ سینسیٹائیزیشن سیشن

اسلام آباد (بیورو رپورٹ) پناہ کا میٹھے مشروبات کے صحت اور معشیت پر ہونے والے مضر اثرات کے متعلق پارلیمنٹیرینز کے ساتھ سینسیٹائیزیشن سیشن سوات: میٹھے مشروبات پر ٹیکس بڑھانے سے حکومتی ریوینیو بڑھانے اور ہسپتال کے اخراجات کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ میٹھے مشروبات پر ٹیکس بڑھنے سے عام آدمی متاثر نہیں ہوتا کیونکہ یہ ضروری اشیاء نہیں ہیں اور ان کے استعمال سے صرف بیماریوں کا بوجھ بڑھتا ہے

اور ہسپتال کے اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک نے میٹھے مشروبات کے استعما کو کم کرنے کے لیے ان مشروبات پر ٹیکسز بڑھا دیے اور ان کے بہت مثبت اثرات سامنے آئے ہیں۔میٹھے مشروبات پر ٹیکس لگانے سے نہ صرف بیماریوں کا بوجھ کم ہوگا بلکہ حکومت کو اضافی ریونیو بھی ملے گا جو صحت کی بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ حکومت 2023-24 کے بجٹ میں میٹھے مشروبات پر کم از کم 50 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرے گی۔

یہ بات صحت اور معاشی ماہرین نے سوات کے مقامی ہوٹل میں اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ اجلاس میں کہی۔ اجلاس میں شرکت کرنے والوں میں ایم این اے اور ممبر ہیلتھ کمیٹی ڈاکٹر نثار چیمہ، ایم این اے ڈاکٹر شازیہ صوبیہ سومرو، ایم این سے ڈاکٹر ثمینہ مطلوب، ایم این اے رمیش لال، ایم این اے خورشید جونیجو ڈاکٹر خواجہ مسعود احمد، نیشنل کوآرڈینیٹر نیوٹریشن اینڈ این ایف اے، ایم او این ایچ ایس آر اینڈ سی، گلوبل ہیلتھ ایڈووکیسی انکیوبیٹر (GHAI) کے کنسلٹنٹ جناب منور حسین، پناہ کے ایمبیسیڈر امجد خان یوسفزہی شامل تھے۔ ثناء اللہ گھمن، سیکرٹری جنرل PANAH نے تقریب کی میزبانی کی۔
ڈاکٹر نثار چیمہ نے کہا کہ پاکستان میں بیماریوں کا بوجھ دن بدن بڑھ رہا ہے۔میٹھے مشروبات بہت سی مہلک بیماریوں کی ایک بڑی وجہ ہیں اور حکومت بیماریوں کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرے گی۔ میٹھے مشروبات پر ٹیکس بڑھانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
وزارت صحت کے خواجہ مسعود نے کہا کہمیٹھے مشروبات ایسے مشروبات ہیں جن میں چینی شامل ہوتی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق، اضافی شکر کی کھپت کل کیلوریز کے 10 فیصد سے کم ہونی چاہیے اور بہتر ہے

کہ انہیں 5فیصد تک محدود کیا جائے۔ ان میٹھے مشروبات کا زیادہ استعمال خاص طور پر بچوں اور نوعمروں کی صحت کے لیے بڑے خطرات کا باعث بنتا ہے۔ موٹاپے، ذیابیطس، امراض قلب اور دیگر امراض میں اضافے کی ایک بڑی یہی میٹھے مشروبات ہیں اور ان کے زیادہ استعمال کی وجہ سے آج پاکستان دنیا میں ذیابیطس میں تیسرے نمبر پر ہے اور جس شرح سے اس میں اضافہ ہورہا ہے۔، پاکستان دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ ان مشروبات کے زیادہ استعمال کی وجہ سے نہ صرف یہ بیماریاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں بلکہ حکومت پربیماریوں سے نمبٹنے کا بوجھ بھی بڑھ رہا ہے۔ صرف زیابیطس کی روک تھام پر پاکستان کے سالانہ اخراجات کا تخمینہ 2640 ملین امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔
ہیلتھ ایڈووکیسی انکیوبیٹر کے کنسلٹنٹ منور حسین نے کہا کہ دنیا نے میٹھے مشروبات کے استعمال کو کم کرنے اور اپنے لوگوں کو ان کے نقصانات سے بچانے کے لیے کچھ موثر اقدامات کیے ہیں، ہمیں بھی ان اقدامات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس کے لیے دنیا نے جو اقدامات کیے ہیں ان میں ان مشروبات کے نقصانات کے بارے میں آگاہی کے ساتھ ساتھ ان مشروبات پر ٹیکس میں اضافہ، ان کی مارکیٹنگ پر پابندی، فرنٹ آف پیک لیبلنگ اور وارننگ سائنز اور اسکول فوڈ پالیسی شامل ہیں۔ جن ممالک نے ان کو نافذ کیا

ان کے ملک میں نہ صرف بیماریوں کا بوجھ کم ہوا بلکہ حکومت کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا۔ سعودی عرب نے اپنے میٹھے مشروبات پر 50 فیصد اور انرجی ڈرنکس پر 100 فیصد ٹیکس عائد کیا اور اس پر 5 فیصد ویلیو ایڈڈ ٹیکس لگایا جس کے نتیجے میں سوڈا کی کھپت میں 41 فیصد اور انرجی ڈرنکس کی کھپت میں 58 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اسی طرح قطر، چلی، مالدیپ اور دیگر کئی ممالک نے اپنے ممالک میں بیماریوں کو کم کرنے کے لیے مناسب پالیسی اقدامات کرکے نہ صرف صحت پر بوجھ کم کیا ہے

بلکہ آمدنی میں بھی اضافہ کیا ہے۔. انہوں نے حکومت کو متنبہ کیا کہ اگر فوری طور پر کوئی پالیسی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو 2045 تک پاکستان میں ٹائپ ٹو ذیابیطس کے شکار افراد کی تعداد 62 ملین تک پہنچ جائے گی۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ 2023-24کے بجٹ میں میٹھے مشروبات پر کم از کم 50فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کی جائے اور صحت مند مشروبات جیسے پانی اور بغیر میٹھا ملے دودھ پر ٹیکسز کو کم کیا جائے۔پناہ کے سیکرٹری جنرل ثناء اللہ گھمن نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے

کہا کہ پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن گزشتہ 40 سالوں سے لوگوں کو دل اور اس سے متعلقہ بیماریوں اور ان بیماریوں کی وجوہات کے بارے میں آگاہی دے رہی ہے۔پناہ حکومت کے ساتھ مل کر ان کی روک تھام کے لیے قانون سازی کر رہی ہے تاکہ ہمارے ہم وطنوں اور بالخصوص بچوں کو صحت مند زندگی دی جا سکے کیونکہ ایک صحت مند قوم ہی ملک کی مضبوطی کی ضمانت ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا

کہ مشروبات کی صنعت ہر قدم پر پالیسی سازوں کو گمراہ کر رہی ہے اور پالیسی کے عمل میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔ ہم پارلیمنٹیرینز سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ مشروبات کی صنعت کے مفادات پر صحت عامہ کو ترجیح دیں۔ارکان پارلیمنٹ نے یقین دلایا کہ وہ صحت عامہ کے مفاد کے لیے فنانس بل میں ایس ایس بی ٹیکس بڑھانے کی حمایت کریں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں