56

جب مؤرخ کے ہاتھ بندھے تھے !

جب مؤرخ کے ہاتھ بندھے تھے !

اس ملک کی تاریخ کی ورق گردانی تو سبھی کر تے رہے ہیں ،مگر اس ورق گردانی میں چھپے رازوں سے پردہ اُٹھا نا اور انہیں عام عوام کے سامنے لانا کوئی آسان کام نہیں رہا ہے، یہ انتہائی مشکل کام ہے اور ہر ایک کے بس کی بات بھی نہیں ہے ،جبکہ مورخ کے ہاتھ بھی بندھے ہوتے ہیں ،اس ملک میں مؤرخ کے ہاتھ کبھی کھلے رہے ہی نہیں ہیں، یہاں پر بند ھے ہاتھوں سے ہی کچھ مؤرخوں نے بڑی جرأت کا مظاہرہ کر تے ہوئے

لکھا اور بہت خوب لکھا ہے ،ان جرأت مند لکھاریوں میں ایک نام ڈاکڑفاروق عادل کا بھی ہے ، ڈاکڑفاروق عادل تاریخ پا کستان کے انتہائی گمشدہ گوشوں کو تلاش کر نے کے فن سے ہی آشنانہیں ، بلکہ بہت سے چھپے رازوں کو بھی اپنے بندھے ہاتھوں سے افشاں کر نے میں مہارت رکھتے ہیں ، اس مہارت کا ہی کمال ہے کہ اُن کی ایک کے بعد ایک آنے والی کتاب ہر خاص وعام میںمقبول ہورہی ہیں۔
آج کل ڈاکڑفاروق عادل کی کتاب کے نئے ایڈیشن ’’جب مورخ کے ہاتھ بند ھے تھے ‘‘ کا خاصہ چر چا ہے، اس پر ہر حلقہ احباب میں بحث ہورہی ہے ، ہر کوئی اپنے تائیں اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہے ، یہ کتاب میرے تک بھی قلم فاو نڈیشن انٹر نیشنل کے علامہ عبدالستارعاصم کے ذریعے پہنچی ہے ، اس کتاب کا سر ورق ممتاز خطاط و آر ٹسٹ ممتاز علی کی خوبصورت پینٹنگ سے مزین ہے ، جبکہ کتاب میں لگاکا غذ اور پر نٹنگ اتنی شاندار ہے کہ کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے کمزور نظر والوں کو بھی کوئی پر یشانی نہیں ہوتی ہے

،اگر چہ بظاہرکتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے انتہائی خشک معلوم ہو تی ہے ، تاہم اس کے موضو عات بھلے خشک رہے ہوں ،لیکن لکھاری کے قلم کی شگفتگی ، شستگی کے ساتھ اپنی تحریر پر گرفت اتنی مضبوط ہے کہ اس سے قاری جڑے بنا رہ ہی نہیں پاتا ہے اور اس کتاب کو ایک ہی نشست میں ختم کر نے پر مجبور ہو جاتا ہے ، اس کتاب کو میں نے بھی ایک ہی نشست میں پڑھا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کتاب کے مطالعہ سے جہاں بہت سے اُ لجھے خیالات سلجھتے ہیں ،وہیں بہت سارے آلودہ ذہنوں کے جالے دور ہو تے بھی دیکھائی دیتے ہیں۔اگر دیکھاجائے توپا کستانیوں کے ذہن کسی غیر نے نہیں ،

اپنوں نے ہی آلودہ کیے ہیں اور اپنوں کی ہی ذمہ داری بنتی ہے کہ انہیں صاف کیاجائے ، لیکن یہ تبھی ممکن ہے کہ جب حقائق سامنے لائے جائیں گے اور لانے دیئے جائیں گے ، اس کتاب میں ڈاکٹر فاروق عادل نے سب کچھ بتا دیا ہے، جو کہ اس قبل نہیں بتایا جا رہاتھا ،اس کتاب میںمؤرخ نے کوئی ہوائی باتیں نہیں کی ہیں، ہر خبر اوررہرافشاں راز کا سورس بتایا ہے اور ہر واقعہ سے جڑے پو شیدہ حقائق سے پردہ اُ ٹھایا ہے ،

اس کتاب کے ہر موضوع سے جڑے واقعات پڑھتے ہوئے قاری کی روح تک کانپ جاتی ہے کہ ہمارے اپنے ہی حکمران اپنے ہی ملک کے ساتھ ایسا نارواں سلوک کر سکتے ہیں، جو کہ ایک سوتیلی ماں اپنے سوتیلے بچے کے ساتھ بھی نہیں کرتی ہے، لیکن اس ملک کے حکمرانوں نے اپنے ہی ملک کے ساتھ سوتیلی ماں سے بھی بد ترسلوک رواں رکھا ہے۔
یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے

کہ اس ملک کے ساتھ کھلواڑ کر نے والے ہی ملک سے وفاداری کے دعوئیداررہے ہیں ، انہیں کوئی پو چھنے والا ہے نہ ہی کو ئی احتساب کر نے والا ہے ، یہاں پر احتساب کے نام کو سیاسی انتقام کیلئے ہی استعمال کیا جاتا رہا ہے ، اس ملک میں ایسا کچھ ہوتا رہا ہے ، جوکہ کہیں نہیں ہوتا ہے،کیاکوئی سوچ سکتا ہے کہ اپنے ہی ملک کاوزیراعظم باہر سے درآمد کیا جائے، کیا کوئی سوچ سکتا ہے

کہ عوام کی مرضی کے خلاف حکومتیں بنائی اور گرائی جاتی رہی ہیں،کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ جمہوری حکومت گرا کر کیسے مار شل لاء لگا ئے جاتے رہے ہیں اورہماری عدلیہ نے تاریخ کے ہر اہم موڑ پر جو گل کھلائے ہیں، کیا اس کی کہیںنظیر ملتی ہے؟
اس کتاب کو پڑھتے ہوئے اہل سیاست کی قلابازیاںاور اسلام کے نام پر سیاست کر نے واوں کی ڈرامہ بازیاں جہاں واضح دکھائی دیتی ہیں ،وہیں ان تمام عناصر کی کوتاہیاں اور بددیانتیاں بھی مرحلہ وار سامنے آتی ؎ ہیں کہ کیسے حصول اقتدار کیلئے کبھی نظریاتی سیاست کا تڑکا لگایا گیا اور کبھی نظریہ ضرورت آزمایا جاتا رہا ہے، ہر دور اقتدار میں احتجاجی تحریکوں کے پیچھے کون تھا اور احتجاجی دھرنے کون کرواتا رہا ہے ،

یہ سب کچھ بہت دیر تک چھپایا رہا ہے ، لیکن اب کچھ بھی چھپا نہیں رہا ہے ، اس کتاب کے مؤرخ نے اپنے بندھے ہاتھوں سے ہی اہل سیاست اور اہل طاقت سے لے کچے کے ڈاکوں تک کے راز بڑی جرأت سے افشاں کر تے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ مورخ کے ہاتھ بھلے بندھے رہے ہوں، مگر ان بندھے ہاتھوں سے بھی تاریخ کے حقائق اوراق پر منتقل کیے جاسکتے ہیںاور ڈاکٹر فاروق عادل کی کتاب ’’جب مورخ کے ہاتھ بندھے تھے‘‘ میں پڑھے جاسکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں