164

بارش رحمت کی بجائے زحمت بننے لگی

بارش رحمت کی بجائے زحمت بننے لگی

ہمارے ہاںہر سال مون سون کا موسم پورے جوبن پر ہوتاہے، ملک کے کم و بیش تمام علاقے شدید بارشوں کی زد میں آتے ہیں اور طوفانی بارشوں سے نظام زندگی مفلوج ہوجاتا ہے،ملک بھرکے نواحی علاقوں سے مکانات کی چھتیں اور دیواریں گرنے کی اطلاعات ملتی ہیںکہ جس کے باعث درجنوں لوگ جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوجاتے ہیں،

اس بار بھی وہی کچھ ہو رہا ہے ،14 جون سے شروع ہونے والی بارش کی تباہ کاریوں کی وجہ سے اب تک ہونے والی اموات کی تعداد 77 تک پہنچ گئی اوربے گھر ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے،لیکن متعلقہ اداروں کے کانوں پر کوئی جوں تک نہیں رینگ رہی ہے ،وفاقی وزیر موسمیات سے لے کر قومی ادارے این ڈی ایم اے کے ماہرین تک سب وہی گھسے پٹے پرانے بیانات دینے میں لگے ہوئے ہیں

کہ بارشوں کے تناسب میں اضافے کا سبب موسمیاتی تبدیلی ہے،لیکن ان موسمیاتی تبدیلوںسے نبرد آزماہونے کیلئے کوئی ادارہ جاتی عملی اقدامات نظر نہیںآتے ہیں۔یہ امر واضح ہے کہ ہمارے ہاں ایک طرف سارا سال پانی کی قلت کا رونا رویا جاتا ہے ،جبکہ دوسری جانب جب بارانِ رحمت کا نزول ہوتا ہے تو ہماری اجتماعی اور انفرادی سطح پر لاپروائی اور ناقص منصوبہ بندی کے باعث آسمان سے نازل ہونے والے پانی کو سنبھال کر بہتر استعمال میں لانے اور سال کے باقی دنوں میں قلت کے ازالے کا اہتمام کرنے

کے بجائے خود ہی اپنی تباہی کا سبب بننے کا موقع فراہم کرتے ہیں، ہماری وفاقی و صوبائی حکومتیں اور بلدیاتی ادارے بارشوں اور سیلابی پانی کی تباہ کاریوں سے بچنے اور اس کے مفید استعمال کی منصوبہ بندی کرنے میں قطعی ناکام نظرآتے ہیں، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی سطح پر اس ضمن میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی ہے،یہ کس قدر دکھ کا مقام ہے کہ ہم نصف صدی قبل بنائے گئے ڈیموں پر ہی گزارا کررہے ہیں اور نئے ڈیم بنانے کے حواالے سے دعوئے کرنے کے باوجود عملی طور پر سیاسی مصلحتوں کا شکار نظر آتے ہیں۔
اس ضمن میں لمبی چوڑی تقریریں

اور قصے کہانیاں ہی طویل عرصے سے لوگوں کو سنائی جارہی ہیں، مگر برسرِزمین آج تک کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دیتی ہے ،ایک طرف حکمران طویل عرصے سے مختلف حیلوں بہانوں سے مسلسل پہلوتہی اور غفلت کا مظاہرہ کرتے چلے آرہے ہیںتو دوسری جانب ہمارا انفرادی سطح پر طرزِعمل بھی اجتماعی رویّے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے،ملک بھر میں بارشیں اچانک نہیں ہوتی ہیں ،

ہمیں ہر سال انہی دنوں میں ان سے واسطہ پڑتا ہے اورمحکمہ موسمیات ان کی شدت اور متوقع وقت کے بارے میں قبل از وقت انتباہ کردیتا ہے،تاہم متعلقہ ادارے جہاں لا پروہی کا مظاہرہ کرتے ہیں ،وہیںہم اجتماعی طور پر نہ ہی انفرادی طور پر سنجیدگی سے ان کے نقصانات سے بچاؤ کی تدبیر کی جانب متوجہ ہوتے ہیں، اس کے نتیجے میں ہر بار نقصان کے حجم میں خاصا اضافہ ہوتا جارہاہے۔
اس وقت ملک میں جو سیلابی صورتحال ہے یا بارشیں ہو رہی ہیں،یہ غیر معمولی ہیں نہ ہی انھیں ناگہانی آفات سے تعبیر کیا جا سکتا ہے

،یہ بارش کے سبب جو نقصانات ہو رہے ہیں ان سے بہتر انتظامات کر کے بچا جا سکتا تھا، مگرحکومت کی توجہ اپنی بنیادی ذمہ داریوں کی بجائے سیاسی جوڑ توڑاور اپنی کرسی کے تحفظ کی جانب مرکوزہے ،یہ حکومت کی عدم توجہ کا نتیجہ ہے کہ جب کوئی ہنگامی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو اس سے نمٹنے کے لیے مطلوبہ تعداد میں تربیت یافتہ عملہ ہے نہ ہی متعلقہ اداروں کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ فوری طور پر عام آدمی کی مشکلات کا مدوا کر سکیں،اس لیے اپوزیش جماعتیں برسراقتدار طبقہ کو مورد الزام ٹہراتی ہیں اور حکمران طبقہ اپوزیشن اور بعض وقت عوام کو ہی ذمہ دار گردانتے ہوئے

اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش میں نظر آتے ہیں۔وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی نے ذرائع ابلاغ کے ذریعے بارش اور سیلاب سے پیش آنے والے خطرات سے تو بروقت خبردار کردیا ، لیکن یہ بتا نے کی کوشش ہی نہیں ہے کہ حکومت اور متعلقہ محکموں کے پاس فوری اور طویل المیعاد منصوبے کیا ہیں ؟ ماضی میں کئی بار مختلف علاقوں میں سیلاب آچکے ہیں،لیکن ان تجربات کی روشنی میں قدرتی آفات سے

محفوظ رہنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں،ہمارے ملک میں بیش تر تباہ کاری قدرتی آفات کی وجہ سے کم اور ناقص منصوبہ بندی سے زیادہ ہے، اس ملک میں ایک طرف پیشگی منصوبہ بند کا فقدان ہے تو دوسر جانب وفاق، صوبے اور بلدیات میں حکمراں جماعتیں اور افسر شاہی کی نظریں صرف بجٹ اور ساری کش مکش حکومتی فنڈ کی بندر بانٹ پر رہتی ہے،حکمران اور انتظامیہ کا جب ایسا رویہ ہو گا تو پھر عوام کیلئے بارشیں رحمت کی بجائے زحمت بن جاتی ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں