75

ایل ڈی اے خسارے میں ۔۔۔!

ایل ڈی اے خسارے میں ۔۔۔!

تحریر: عرفان مصطفی صحرائی

پاکستان مختلف درپیش مسائل سے نبردآزما ہے،معاشی جمود،سیاسی عدم استحکام ، عوامی اعتماد میں کمی کا سامنا ہے اور بدعنوانی ایک وسیع مسئلہ ہے۔کرپشن کو کمزور حکمرانی ڈھانچے،سیاسی سرپرستی اور احتساب کی کمی کی وجہ سے ہوا ملی ہے۔ملک کی معیشت پر بدعنوانی کے اثرات گہرے ہیں،اداروں کو جان بوجھ کر کمزور کیا گیا ہے،تمام پالیسیاں مفادات کے گرد منڈلاتی ہیں،ان عوامل کا مقصد بااثر افراد کے مفادات کے حصول میں آسانی پیدا کرنا ہے۔اس کی ایک مثال لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) ہے،

کیوں کہ ہمارے شہر تیزی سے پھیل رہے تھے ،یہ عوامی مفاد میں تھا کہ فیصلہ سازی اور پلاننگ کرتے ہوئے ،جمہوری فکر کو اختیار کریں ، تاکہ عدم مساوات سے بچا جا سکے اور جو کمزور طبقات ہیں، ان کے لئے بہتر فیصلے ممکن ہو سکیں ،مگر ہوا اس کے بلکل برعکس،کمزور طبقہ کے لئے گھر بنانا خواب بن کر رہ گیا ہے۔
لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ایکٹ 1975ء میں بنائے گئے ،جن پر بعد میں متعدد بار نظر ثانی بھی کی گئی،تاکہ نجی اور سرکاری تعمیراتی سیکٹر کو سہولیات فراہم کی جا سکیں،اس کا مقصد لاہور کی عمارات کو مجوزہ اصولوں اور منصوبہ بندی کے تحت بنایا جانا تھا،یعنی ہم اپنے ارد گرد جو تعمیرات دیکھتے ہیں وہ خاص تعمیراتی قوانین کے تحت بنی ہوتی ہیں ،مثال کے طور پر گھر کے باہر سڑک کتنی چوڑی ہو گی ،کس علاقے میں عوامی عمارتوں ،تجارتی حصے ،سبزے اور فٹ پاتھ کے لئے کتنی جگہ مختص ہو گی ،سیفٹی کی وجہ سے عمارت کے تینوں اطراف میں کتنی جگہ چھوڑی جائے گی وغیرہ وغیرہ،ان سب کا فیصلہ ان اصولوں اور قوانین کے تحت ہوتا ہے ،مگر ایل ڈے اے نے تمام کرپشن کے ریکارڈ توڑتے ہوئے ،کسی اصول کو خاطر میں نہیں رکھا۔لینڈ مافیا سے گھٹ جوڑ کی داستانیں زبانِ زد عام ہیں۔
ماضی میں کسی بھی اسکیم میں 20فیصد پلاٹ کم آمدن والے طبقے کے لئے اس طرح مختص تھا کہ 10فیصد پلاٹ 3سے 5مرلے کے ہوں گے،جب کہ باقی 10فیصد کثیر المنزلہ فلیٹ کے لئے ہوں گے ،لیکن قانون میں ترمیم کر کے کم آمدن والے طبقے کے لئے 20فیصد مختص پلاٹ ختم کر کے ڈیویلپر کو اس جگہ پر چھوٹے لیکن پُر تعیش اپارٹمنٹ تعمیر کرنے کی اجازت دے دی۔اگرچہ پچھلے قانون پر عمل نہیں ہو رہا تھا ،تاہم اب تو ایسا لگتا ہے کہ کم آمدن والے طبقے کے لئے رہائش کا حصول ناممکن بنا دیا گیا

ہیِ،دوسری جانب لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی حدود میں غیر قانونی ہائوسنگ سکیموںکی بھرمار ہے، ان سوسائٹیوں کے مالکان نے لوگوں کو خوبصورت خواب دکھا کران کی زندگی بھر کی جمع پونجی کو دائو پر لگا دیا ہے،حالاں کہ کسی بھی رہائشی سکیم /لیڈ سب ڈویژن میں پلاٹ خریدنے سے پہلے اس سکیم اور پلاٹ کی قانونی حیثیت کے بارے میں مکمل معلومات عوام تک پہنچانا ایل ڈی اے کی بنیادی ذمہ داری ہے ،گو کہ شکایات کے لئے ون ونڈو سیل کا خصوصی کائونٹر قائم ہے ،مگر لینڈ مافیا اتنا طاقت ور ہے

کہ ایل ڈی اے افسران مکمل طور پر ان کے مددگار ہیں،حالاں کہ قوانین کے تحت کسی بھی سکیم میں اس وقت تک پلاٹ نہیں خریدا جا سکتا، جب تک ایل ڈی اے اسے منظور نہ کرے،مگر آج بھی ہر جانب غیر قانونی ہائوسنگ سکیموں کے بڑے بڑے اشتہارات آویزاں ہیں،خریدو فروخت جاری ہے۔کیا غیر قانونی سکیموں سے ایل ڈی اے غافل ہے ؟ایسا نہیں ہے،کیوں کہ وہ تمام غیر قانونی سکیمیں ایل ڈی اے قوانین کے مطابق نہیں ہیں،گرین ایریا میں ہیں،فرنٹ یا سڑکیں چھوٹی ہیں،پارک ،مسجد ،سکول، ہسپتال ،قبرستان سہولیات موجود نہیں ،اس لئے ان کا نقشہ پاس نہیں ہو سکتا ،یہ تمام قوانین عوام کی بھلائی کے لئے بنائے گئے تھے

،مگر ایل ڈی اے آفیسرز ان غیر قانونی سکیموں کو نوٹسسز کرتے ضرور ہیں ،لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوتی، کیوں کہ کارروائی روکنے کی قیمت ادا کر دی جاتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ ایل ڈی اے مالی مشکلات کے بھنور میں ہے،عارضی و مستقل کمرشلائزیشن فیس کی مد میں ریکوری کا حدف پورا نہیں ہو سکا،اسی وجہ سے ایل ڈی اے کے اربوں روپے کے منصوبے تعطل کا شکار ہیں،لیکن ایل ڈے اے کے آفیسرز کی معاشی حالات بہتر سے بہتر ہو رہے ہیں ، ان کا لائف سٹائل چیخ چیخ کر بتا رہا ہوتا ہے،کہ کرپشن کی انتہا کو چھوا جا چکا،مگر کسی کا احتساب نہیں کیا جاتا،محکمہ انٹی کرپشن میں ایل ڈی اے اہلکاروں کے خلاف درجنوں درخواستیں پہنچی،مگر انٹی کرپشن بھی تو پاکستان کا ایک ادارہ ہے،وہاں بھی حصہ لینے تک کی کارروائی ہوتی ہے۔
سابق ڈی جی ایل ڈی اے محمد علی رندھاوا نے نگران وزیر اعلٰی محسن نقوی سے مل کر اچھی کارکردگی کی بہت کوشش کی ہے، اچھے کام بھی ہوئے ہیں ،مگر عوامی کی پریشانیاں جوں کی توں رہی ہیں،انہوں نے انجینئر ونگ پر خصوصی توجہ دی ،مگر جن شعبوں میڑوپولیٹن پلاننگ ،ٹائون پلاننگ سے ریونیواکٹھا کرنا تھا ،توجہ سے محروم رہے، ویسے آئی ٹی کے شعبہ میں اصلاحات،ون ونڈو سروس میں دوشفٹیں اور تیزی،مختلف منصوبوں پر کام ان کے کریڈٹ پر جاتا ہے،لیکن کرپشن میں خاطر خواہ کمی عمل میں نہیں لا سکے۔
نئے ڈی جی ایل ڈی اے طاہر فاروق کو بہت بڑے چیلینجز کا سامنا ہے،غیر قانونی سکیموں پر فوراً کارروائی ایک بڑا چیلیج ہے،انہوں نے اپنے اہداف پر کام کرنا شروع کر دیا ہے ،اسی لئے60ہزار سفٹ شدہ فائلوں سے متعلق وصول درخواستیں پر کارروائی تیز کر دی ہے،بلڈنگ پراسس کو آسان بنانے کے لئے شعبہ ٹائون پلاننگ کو ہدایات جاری کر دی ہیں،مگر جب تک ان کرپٹ آفیسر کا احتساب عمل میں نہیں لایا جائے گا،ادارے کی کارکردگی میں بہتری ممکن نہیں ،عوام پستی اور لٹتی رہے گی ،لینڈ مافیا پروان چڑھتے رہیں گے اور ایل ڈی اے خسارے میں جاتا رہے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں