120

رمضان المبارک اپنے اللہ کی رضا حاصل کرنے کا بہترین مہینہ ہے

رمضان المبارک اپنے اللہ کی رضا حاصل کرنے کا بہترین مہینہ ہے

نقاش نائطی
۔ +966562677707

رمضان المبارک کی نسبت سے مولانا سجاد نعمانی مدظلہ کا کرب انگیز بیان مولانا سجاد نعمانی صاحب مدظلہ کسی اور بزرگ کے خواب میں دو مرتبہ آپﷺ کی زیارت ہونے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اس بزرگ کے خواب میں آکر شکایت کی کہ میری امت نےمجھے چھوڑ دیا ہے اور میرے اپنوں نے مجھے چھوڑ دیا
کسی بھی تحریک کو دوسرے سے زیادہ اسکے اپنوں ہی نے نقصان زیادہ پہنچایا ہے خود کو اہل سنہ و الجماعہ کے نام نامی سے مشہور کرتے ہوئے، صاحب ریش جبہ ٹوپی دستار پہنے، اسلام کی دعوت عام کرنے کے نام پر،زندگی بھر اللہ کے رسول ﷺ کے لاتشرک باللہ کہے حکم کے خلاف، شیعیت رافضیت والے شرک و بدعات کو، دین اسلام کا حصہ بناتے ہوئے، ہزاروں سال قبل کےسناتن دھرمی ھندوؤں کے، ہر کنکر میں شنکر بھگوان کو دیکھنے والے تفکر وحدة الوجود کی شکل کو، دین اسلام اثاث بنائے،

مرحوم بزرگوں کی قبروں کی پرستش مسلمانوں سے کھلے عام کرواتے ہوئے، ماقبل رسالت سرداران قریش کے طرز اس وقت زیارت حرم مکی کو آئے ، اس وقت کے دین ابراھیمی مسلمانوں کو، احرام کی چادریں کرایہ پر دئیے، دین ابراھیمی کے نام سے اس وقت کے مسلمانوں کو لوٹنے والوں کے طرز پر درگاہوں میں پھول و چادر چڑھائے عام مسلمانوں لوٹنے والے اہل سنہ و الجماعہ بریلوی فرقہ والوں نے، اتنے اچھے دین اسلام کی شبیہ، بگڑے ہوئے سناتن دھرمی ھندوؤں کے مماثل کئے، ہم مسلمانوں کو عالم کے اور ادیان ماننے والوں کے سامنے ھیج تر جو رکھ چھوڑا ہے، غالب گمان یہ ہے کہ آپ ﷺ کا شکوہ انہی نام نہاد دین کے ٹھیکہ داروں سے ہے

رہی بات حضرت مولانا سجاد نعمانی مدظلہ نے بڑے درد و کرب کے ساتھ رمضان کی مبارک ساعتوں میں، اپنے اللہ کے حضور گڑگڑا کر معافی مانگنے اور اللہ کو راضی کرنے کی عوام سے جو التجا و درخواست کی ہے، ہم بڑے ہی ادب سے یہ کہنا چاہتے ہیں، معافی تلافی کی شرط اولی، گنہ گار خطا کار اپنی غلطیوں کا اظہار کر دوبارہ وہی خطائیں یا شرک وبدعات نہ کرنے کے وعدے کرتے ہوئے ہی، اپنے سابقہ گناہوں کی بخشش کرواتے ہوئے، ایک حد تک، اللہ رب العزت کی قہاریت و جباریت کو، رحمن و رحیمیت میں بدلنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ شرک و بدعات کا بازار گرم رکھنے والے ہر گزرتے دن کے ساتھ، اپنے شرک و بدعات کی دوکانیں بڑھاتے چلے جائیں اور عام مسلمان ہزار رو رو کر گڑ گڑاکر معافی مانگتے رہیں تو کتنا فائیدہ ہوسکتا ہے یہ حضرت مولانا سجاد نعمانی مدظلہ ہم سے بہتر سمجھ سکتے ہیں۔

اسوئے رسول اللہﷺ پر صحیح طور عمل پیرا، جہادی جذبات سے سرشار، مومن مسلمانوں کی قلیل تعداد فلسطینی مسلمانوں نے،عالم کی سب سے بڑی چوتھی حربی قوت اسرائیل کے ساتھ، عالم کی پہلی اور پانچوین چھٹی حربی قوت امریکہ ھند و یورپ کی مشترکہ افواج کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور، کیا نہیں کیا ہے؟کیا آج کے ہم ھند و پاک بنگلہ دیش کے مسلمانوں میں وہ جذبہ جہاد ہم پاتے ہیں؟ ہم اپنے خاتم الانبیاء سرورکونین محمد مصطفی ﷺ کے مکرر بتائے، لاتشرک باللہ کے حکم کو دانستہ، نہ مانے، اپنے وفات پائے بزرگوں کو،مالک دوجہاں کی خلقت و رزاقیت والے وصف کا شریک بنائے،رب دوجہاں کی جباریت و قہاریت کو للکارتے رہیں، اور اپنے حقوق اللہ والے نماز روزوں سے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرتے رہیں

تو یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ اللہ رب العزت،اس کی خدائی میں شریک بنانے والے ہمارے شرک و بدعات کو پس پشت رکھے، ہمارے نماز روزے دیکھے، ہم پر انعام و اکرام کی بارش بھی کرتا رہے۔دوزخ سے گلو خلاصی اور جنت عطا کرنے کی قدرت تو اس ذات پاک رحمن و رحیم ہی کی ہے۔ یتیم بچیوں کو،اپنے والدین کی ترکیہ ملکیت، ان کے حق کو ہضم کئے، انہیں محروم کئے،فضائل اعمال والے چند عمل سے، اپنے اوپر دوزخ کی آگ کو حرام قرار دئیے اور جنت کو اپنے لئے واجب قرار دینے والے علماء کرام کے پند و نصائح ہی سے، عالم میں حقوق العباد کی لغزشیں پروان چڑھ رہی ہیں۔ ماقبل نبوت بچپن سے چالیس لمبے سال تک و بعد نبوت 23 سال تک اپنے حسن اخلاق سے، امانت داری،دیانت داری، وعدہ وفائی،بڑوں کا احترام تو چھوٹوں سے شفقت،کذب گوئی سے احتراز توڈنڈی مار تجارت سے اجتناب والے معاملات آگہی،

ان تمام اعمال کو پس پشت رکھے فقط رمضانی صوم و صلواة ذکر و اذکار سے،اپنی آخرت سنورنے یا سنوارنے کا خواب دیکھنے والے ہم مسلمانوں کو،اس بات کا علم ہونا چاہئیے کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہونے کی شرط لازم ملزوم ہے۔کچھ لو اور کچھ دو کی شرائط پر اگر دین چلنا ہوتا تو سرداران قریش کے کہنے پر آپ ﷺ نے، اہل مکہ کی سرداری قبول کی ہوتی اور مختلف غزوات لڑے، بھوک فاقہ والی زندگی سے،اپنے اور اپنے ماننے والے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو آمان دلائی ہوتی۔ خلافت راشدہ اختتام، سکوت بغداد بعد، یہود و نصاری اسلام دشمن سازش کنندگان نے، ہم مسلمانوں کے خون میں موجود جہادی جذبات کو کھرچ کھرچ نکالنے ہی کے لئے، اس وقت کے علماء کرام کو استعمال کر،

حصول علم کو دنیوی و عصری علوم میں منقسم کئے،ہم مسلمانوں کے لئے دینی علوم کا حصول فرض قرار دئیے، کیا ہم مسلمانوں کو مسجدوں درگاہوں مدرسوں کی چاردیواری میں مقید کرنے کی کوشش نہیں کی تھی؟ مسلم محقیقین کے اوصاف تحقیق کو علوم دینیہ ہی کی تحقیق پر لگوائے،بریلوئیت رافضیت احمدیت قادیانیت جیسے فرقوں میں ہم مسلمانوں کو بٹواتے ہوئے،امت مسلمہ کا شیرازہ بکھیر نہئں رکھ دیا گیا ہے؟
آج ہم مسلمانوں میں اپنے باپ دادا سے چلے آرہے دین اسلام کے نام پر،اتنے خرافات ،عام چال چلن مسلم معاشرے میں رچ بس گئے ہیں کہ قرآن و حدیث کا مطالعہ کر،حلقہ بگوش اسلام ہونے والے جدت پسند اعلی تعلیم یافتہ مسلمان، ہم پشتینی نام نہاد مسلمانوں سے، اپنے آپ کو دور رکھے، صحیح العقیدہ سلف و صالحین والے دین اسلام پر عمل پیرا رہنے پر مجبور ہیں۔ دین کی بقاء کو دعوتی چلت پھرت کی وجہ بتانے والوں کو یہ بات معلوم ہونی چاہئیے کہ تا قیامت، دین سلف صالحین کو باقی رکھنے کی ذمہ داری، اللہ رب العزت نے، اپنے ذمہ لی ہوئی ہے۔ اسی لئے وہ پاک ذات، وقفہ وقفہ سے، عصری ترقی یافتہ تعلیم یافتہ سلیبڑٹی ایکون کو، ہدایت دئیے، انہیں داخل اسلام کئے، وہ پاک پروردگار، دین اسلام کی اہمیت و حقیقت کو زمانے پر واضح کرتے ہوئے، ہمہ وقت دین اسلام کو موضوع بحث رکھا کرتا ہے

،تاکہ عصری تعلیم یافتگان میں دین اسلام کے بارے میں جاننے کا تجسس پیدا ہوتا رہے۔اللہ ہی سے دعا ہے کہ وہ پاک پروردگار اس رمضان المبارک میں پورے عالم کی ہم مسلمانوں کی طرف سے کئے جانے والے نماز روزے ذکر و اذکار کے ساتھ ہی ساتھ،اسکی مفلوک الحال مخلوق کی داد رسی کرتے صدقات و کاة خیرات ہی کے طفیل ہم کو پورے کے پورے دین اسلام میں داخل ہوتے،وقت رسول اللہ ﷺ والے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین و سلف صالحین کے دین اسلام پر چلنے والے مسلمان بنادے اور ہم میں عود کر آئے شرک و بدعات سے ہمیں بچنے کی توفیق عطا فرمادے وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں