کسان فصل کی اُجرت سے محرروم رہے گا ! 32

ٹکراؤ ا کسی کے مفاد میں نہیں !

ٹکراؤ ا کسی کے مفاد میں نہیں !

ملک میں ایک طرف کسان اپنی فصل کی اُجرأت نہ ملنے پر سراپہ احتجاج ہیں تو دوسری جانب وزیر اعظم شہبازشریف کا گندم درآمد اسکینڈل کمیٹی کے سربراہ سے کہناہے کہ مجھے ذمہ داروں کا واضح تعین کرکے بتایا جائے، کوئی لگی لپٹی مت رکھی جائے، قوم سے کچھ چھپایا نہیں جائے گا ،جبکہ حقائق پہلے ہی قوم کے سامنے آچکے ہیں ، مسلم لیگ( ن ) کے رہنما حنیف عباسی کا کہنا ہے کہ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کا کڑ چور ہیں ، انہوں نے گندم سکینڈل میں پیسے کھائے ہیں

، اس کے جواب میں انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ اگر میں نے ای سی پی کے فارم 47 کے بارے میں معلومات شیئر کردیں تو مسلم لیگ (ن) کے رہنما شرمندگی سے چہرہ چھپاتے پھریں گے، لیکن تب بھی ان کا چہرہ چھپ نہیںسکے گا۔اس ملک میں حقائق چھپانے اور ذمہ داروں کو بچانے کی روایت عام رہی ہے ، اس بار بھی ایسا ہی کچھ ہورہا ہے ، لیکن عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے دعوئے کیے جارہے ہیں کہ حقائق چھپائے جائیں گے نہ ذمہ دارسزائوںسے بچ پائیں گے ، جبکہ حقائق سامنے آچکے ہیں

اور ذمہ داروں کے تعین میں بھی کوئی روکاوٹ نہیں رہی ہے ،حکومت کے اپنے ہی لوگ قسم کھا کرنہ صرف گواہی دیے رہے ہیں ، بلکہ ثبوت دینے کیلئے بھی تیار ہیں ، لیکن انہیں بلایا جارہا ہے نہ ہی ان سے پو چھا جارہا ہے ،کیو نکہ اندر سے سب ہی ایک دوسر کے کانے ہیں اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں تو پھر احتساب کس کا اور کیسے ہوگا اور غریب مظلوم کو انصاف کیسے مل پائے گا ؟
اگر دیکھا جائے تو اس وقت انصاف دینے والے ہی انصاف مانگ رہے ہیں ، انصاف کے آڑے آنے والی مداخلت کی دھائی دیے رہے ہیں ، اس معاملے کا حکومت کو ئی ٹھوس مستقل حل تلاش کر پائی نہ ہی حکومت میں اتنی جرأت ہے کہ اس غیر آئینی وقانونی مداخلت روکنے کیلئے کوئی آئینی و قانونی ترمیم لا پائے نہ ہی اتنی طاقت ہے کہ اس کے مد مقابل کھڑی ہو پائے ، اس مداخلت کی فر مابرداری پر ہی حکومت چل رہی ہے

اور اس کی نافر مانے پر ہی چلی جائے گی ، اس لیے اعلی عدلیہ کا ہی سہارا لیا جارہا ہے اور اس سے ہی اُمید لگائی جارہی ہے کہ اس مسئلے کا کوئی ٹھوس اور مستقل حل تلاش کرے، تاکہ آئندہ کوئی ریاستی ادارہ اپنی آئینی حدود سے باہر نکلنے کی کوشش کرے،لیکن ساری کائوشوں کے باوجود کوئی بہتر ی کے آثار دکھائی نہیں دیے رہے ہیں۔یہ کتنی عجب بات ہے کہ عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی کے آثار دکھائی دیے رہے ہیں نہ ہی حکومت کی تر جیحات میں کہیں عوام دکھائی دیے رہے ہیں ،

اتحادی حکومت عہدوں کی ہی بندر بانٹ میں لگی ہوئی ہے ، ایک اتحادی وزارتیں لینے میں لگا ہے تو دوسرا صدارتی عہدے کے ساتھ صوبوں کی گور نری سمیٹ رہا ہے ، تیسرے کی نظری وفاق اور صوبائی وازارتوں پر لگی ہیں ، جبکہ عوام کو آئی ایم ایف شرائظ کی سولی پر چڑھادیا گیا ہے ، اس کے بعد بھی عوام پر ہی بوجھ ڈالا جارہا ہے اور اشرافیہ کو بچاکر عوام کو ہی قر بانی کا بکرا بنایا جارہا ہے ،اس کے خلاف عوام آواز اُٹھا رہے ہیں اور کسان سراپہ احتجاج ہیں ، لیکن اتحادی حکومت کو کوئی فرق ہی نہیں پڑ رہا ہے ، اتحادی عوامی مشکلات سے بے غرض ایک دوسرے کو کا بینہ میں لانے اور اپنی کا بینہ بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں ۔
پا کستانی عوام کا ذہن اتنا کمزار ہے نہ ہی عوام اتنے بے شعور ہیں کہ جان ہی نہ پائیں کہ اُن کے ساتھ کیا ہورہا ہے ، یہ پیپلز پا رٹی اور مسلم لیگ قیادت ہی تھے ،جوکہ انتخابات سے قبل ایک دوسرے کو ملک کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیتے رہے اور انتخابات کے بعدایک دوسرے کی حمایت سے مر کز اور صوبوں میں حکومت بنائی ،اس وقت چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ہم وفاق میں حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے،لیکن اب مرکز میں بھی کا بینہ کا حصہ بنے پر رضامندی خا اظہار کر کے بہتی گنگا میں مل کر ہاتھ دھو ئے جارہے ہیں ، کیو نکہ دونوں کو یقین آنے لگا ہے کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی ،لیکن بھول رہے ہیں کہ سیاسی ہوا کے بدلتے دیر نہیں لگتی ہے، یہاں کبھی کچھ بھی ہو سکتا ہے ، سہارا دینے والے اور یقین دلانے والے اپنا پیج بدل بھی سکتے ہیں ۔
اس وقت صورتحال اب یا کبھی نہیں کے مشکل مرحلے میں داخل ہو چکی ہے ، ایک طرف ادارتی تصادم ہے تو دوسر جانب عوام کیلئے انتہائی صبرآزما مرحلہ ہے، اس سے نجات اتحادی حکومت کی دانشمندانہ پالیسی کے ذریعے ہی ممکن ہے، اتحادی حکومت کوجہاں پوزیشن سے ڈائیلاگ کرنا ہوں گے ،وہیں اداروں کو بھی ایک پیج پر لانا ہو گا ، ماضی میں حکومت، عدلیہ اور دفاعی اداروںکے درمیان جو کچھ بھی ہوچکا ہے، اس کوبھولتے ہوئے تمام افراد کو مل کر آگے بڑھناہوگا، اگر اس بار پھر تصادم کا شکار ہوگئے تو پھر ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے ، اس کی تلافی ہو پائے گی نہ ہی کو ئی کر پائے گا ، سارے ہی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں