283

لال حویلی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز

لال حویلی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز

“سچ کی تلاش”تحریر:سردار طیب خان

یہ کبھی سہگل حویلی تھی‘مقامی افراد کا کہنا ہے کہ جہلم سے تعلق رکھنے والے ایک امیر شخص دھن راج سہگل نے اس حویلی کی بنیاد رکھی تھی۔اس کا پس منظر کچھ یوں بتایا جاتا ہے کہ جہلم ہی میں ایک شادی کی تقریب کے دوران بدھاں بائی نامی ایک رقاصہ کے رقص کی محفل سجائی گئی، جہاں دھن راج سہگل ان کے عشق میں مبتلا ہوگئے تھے۔

اس کے بعد دھن راج سہگل نے راولپنڈی کے بوہڑبازار کے علاقے میں چھ کنال اراضی پر ایک حویلی بنوائی تھی، جس کا نام اس وقت ’سہگل حویلی‘ تھا۔اس حویلی میں ایک مسجد اور ایک مندر کی تعمیر بھی کی گئی تھی۔

شیخ رشید بتاتے ہیں کہ بدھاں بائی نے سہگل حویلی میں منتقل ہونے کے بعد رقص کرنا چھوڑ دیا تھا اور ایک مذہبی گھریلو عورت کی زندگی شروع کردی تھی۔ وہ اسلامی رسومات اور مذہبی محافل کراتی تھیں، جس پر دھن راج سہگل کھلے ہاتھ سے رقم خرچ کرتےتھے ۔

بدھاں بائی اس حویلی میں ہی رہتی تھیں۔ اس کے اردگرد موجود عمارت میں کئی کمرے تھے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ متروکہ وقف املاک کی طرف سے لوگوں کو الاٹ کردیے گئے اور فیکٹریوں میں تبدیل ہوتے رہے ۔ اب سہگل حویلی جو ’لال حویلی‘ بن چکی ہے وہ صرف کچھ مرلے پر قائم ہے۔

بدھاں بائی اور پر اسرار کہانیاں

بدھاں بائی کے بارے میں شیخ رشید بتاتے ہیں کہ وہ بہت خوبصورت خاتون تھیں اور وہ بچپن میں ان سے ملا کرتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سفید بالوں والی بدھاں بائی بالکونی میں اکثر کھڑی نظر آتی تھیں اور ان کے ہاتھ میں تھری کیسل کا سگریٹ ہوتا تھا۔ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اور روزنامہ’ نوائے وقت‘ کے بیوروچیف عزیز علوی ’لال حویلی ‘ کے سیاسی سرگرمیوں کے مرکز بننے کے ابتدائی دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پہلی مرتبہ 1987 کے میں یہ عمارت اس وقت لوگوں کی نظروں میں آئی جب شیخ رشید احمد نے کونسلر کا الیکشن لڑا اور راولپنڈی سے مئیر کے امیدوار بھی بنے۔

آل پریس پاکستان سردار طیب خان سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ شیخ رشید نے لال حویلی کو ’ پبلک سیکرٹریٹ‘ قرار دے دیا تھا، جس کے بعد ان کی سیاسی زندگی کا بھرپور آغازہوا اور لال حویلی سیاسی ہلچل کا گڑھ ہوا کرتی تھی۔

عزیز علوی کا کہنا ہے کہ شیخ رشید کسی بڑے سیاسی خانوادے سے تعلق نہیں رکھتے تھے، اس کے باوجود گزشتہ چار دہائیوں سے راولپنڈی کی سیاست میں چھائے ہوئے ہیں، تو اس کی ایک وجہ لال حویلی بھی ہے کیوں کہ یہاں آنے کے لیے کسی سے اجازت نہیں لینی پڑتی۔ شیخ رشید اکثر شام کے وقت لال حویلی کے باہر تھڑے پر یا کوئی کرسی لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور کوئی بھی ان سے مل سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شیخ رشید وہاں قریب ہی موجود ٹھیلوں سے کھانے پینے کی چیزیں منگوا کر اس حویلی کی رونقوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ وہ اپنے اسی عوامی انداز کی وجہ سے آج بھی مقبول لیڈرز میں سےشامل ہیں۔

ماضی میں اس حویلی میں سیاسی شخصیات کے حوالے سے عزیز علوی نے کہا کہ تمام بڑی سیاسی شخصیات اور سفارت کار یہاں آتے رہے ہیں۔ نواز شریف، شہباز شریف کے علاوہ عمران خان جب2013 میں سیاسی اتحاد کے لیے شیخ رشید کی طرف آئے تو وہ لیاقت باغ میں جلسے کے لیے جانے سے پہلے لال حویلی آئے تھے۔

سیاسی مخالفت کا ہدف

لال حویلی جہاں شیخ رشید سے منسوب ہونے کی وجہ سے سیاسی سرگرمیوں کا مرکز رہی وہیں یہ مخالفین کا ہدف بھی بنی۔ 2007 میں سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کی لیاقت باغ میں ہلاکت کے بعد اس حویلی کو آگ لگانے کی کئی کوششیں بھی کی گئیں لیکن وہاں موجود گارڈز نے ان کوششوں کو ناکام بنادیا۔

اس حویلی میں شیخ رشید کا ایک انداز ہمیشہ سے مشہور رہا ہے کہ وہ ہر الیکشن کے بعد رات گئے اپنی والدہ سے مبارک باد وصول کرنے اس حویلی میں آتے اور پھر بالکونی سے خطاب کرتے تھے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں