ملک بھر میں ایک طرف سیلاب نے قیامت برپا کررکھی ہے تو دوسری جانب بڑھتی مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی 120

آزادی ٔاظہار اور ہماری ذمہ داری !

آزادی ٔاظہار اور ہماری ذمہ داری !

دنیا بھر میںاظہار رائے کی آزادی کو ایک انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے،اس حق کو انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے آرٹیکل انیس کے تحت با ضابطہ طور پرتسلیم کیا گیا ہے، اس آرٹیکل کے مطابق ہر شخص کو کسی قسم کی مداخلت کے بغیر اظہارے رائے رکھنے کی آزادی ہونی چاہیے

لیکن یہ آزادی لا محدود اور مطلق نہیں ،اسے محدود اور مشروط کیا جا سکتا ہے ، بشر طہ حکومت ثابت کرنے کی پوزیشن میں ہو کہ پابندیاں معقول ہیںاور ایک آزاد اور جمہوری معاشرے میں ان پابندیوں کا جواز بھی موجود ہے ،اگر حکومت ثابت نہیں کر سکتی تو آزاد عدالتیں ان پابندیوں کو غیر معقول اور بلا جواز قرار دے کر ختم بھی کر سکتی ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں آزادی اظہار عر صہ دراز سے ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے

،ہمارے ہاں ہر کوئی اظہارے رائے کی آزادی کو اپنے ہی انداز سے دیکھنے کا عادی ہو چکاہے ، جبکہ آرٹیکل انیس میںجہاں اظہارے رائے کی آزادی دی گئی ہے ،وہیںبہت سی قدغن بھی لگائی گئی ہیں ، تاہم ہمارے آزادی رائے کے ٹھکیدار ہمیشہ آرٹیکل انیس کا وہی جز بطور حوالہ پیش کرتے ہیں کہ جس میں آزادی اظہار کا ذکر ہے

اورپابندیاں والے حصے سے نظر چرا ئی جاتی ہیں،اس صرف نظر کے باعث جہاںکہیں آئین شکنی و قانون شکنی کی کاروائی شروع ہوتی ہے تو اس کاروائی کو آزادی صحافت پر حملہ قرار دے دیا جاتا ہے یا اسے ریاستی جبر قرار دیکر ریاست کے اوپر آواز حق کا گلا گھونٹنے کی سازش کا الزام لگادیا جاتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ہمارے ہاں جہاں آزادی اظہار کا ناجائز استعمال کیا جاتاہے ،وہیں زبر دستی آواز حق کا گلا بھی دبایا جاتاہے ،اس صورت حال کے پیش نظر ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کو ایک طرف کہنا پڑاہے کہ حکومتیں آزادی اظہار سے کیوں گھبرا رہی ہیں تو دوسری جانب صحافیوں کو ہراساں کرنے سے منع بھی کیا ہے

،عدالت نے صحافیوں کو آزادی اظہار سے روکنے کے حکومتی رویے کو غلط قرار دیا ہے، لیکن حکومت اور سیاسی قیادت جب عدلیہ اور دیگر حساس اداروں پر تنقید کرتے ہیں تو انہیں توہین عدالت اور غداری جیسے سنگین الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے،اس کی تازہ مثال پاک فوج کے سربراہ کے تقرر سے متعلق سابق وزیراعظم کا بیان ہے،اس بیان کے حوالے سے ایک جانب عمران خان اسے اپنا اظہار رائے کا حق سمجھتے ہیں ،جبکہ دوسری جانب حکومت انہیں غدار قرار دینے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے۔
اس ملک کی تاریخ اپنے مخالفین کو غدار ثابت کرنے سے بھری پڑی ہے ،ہر دور اقتدار میں سیاسی قیادت نے ایک دوسرے کو غدار ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے ،اس بارپی ٹی آئی قیادت کو نشانے پر رکھا جارہا ہے ،عمران خان نے کوئی ایسی انہونی بات نہیں کردی ہے کہ اس بات پر انہیں غدار قرادیا جائے

،ان کے خلاف مقدمات بنائے جائیں ، یہ باتیں اپنے ادوار میں سبھی کرتے رہے ہیں ،میاں نواز شریف سے لے کر آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن نے تو انتہا کردی تھی ، سرعام نام لے کر للکارا جاتا رہا ہے ،لیکن کوئی مقدمہ بنا نہ باز پرس ہوئی ،یہ اچانک پی ٹی آئی قیادت کے خلاف اتنا سخت ردعمل کسی پس پردہ ملاقات میں اختلاف کا ہی شا خسانہ لگتا ہے۔یہ ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ رہا ہے کہ ملک میں جب بھی مقتدر قوتیں ایک پیج پر نہ رہیںتو سیاسی قیادت کے بارے سنگین الزامات لگانا شروع ہو جاتے ہیں،

لیکن الزام لگانے والوں کو کبھی غدار قرار دلوانے کی کوشش نہیں کی گئی ،اسی طرح عدلیہ کے کسی فیصلے پر تنقید کی گئی تو تنقید کرنے والے کی گرفت ہوجاتی ہے،اگرچہ توہین عدالت کے الزام پر معافی تلافی سے بات بنتی رہی ہے ،لیکن جن سیاستدانوں پر الزامات سچ ثابت نہیں ہوئے ہیں، انہوں نے کبھی الزام لگانے والوں پر ہتک عزت کا مقدمہ نہیں کیا ہے ، شاید اپنے سے طاقتور سے ڈر جاتے ہیں

،لیکن یہ سیاستدان کبھی صحافیوں پر تشدت کر نے سے نہیں گھبراتے ہیں،ہمارے خفیہ ادارے بھی صحافیوں کو ہی اُٹھا تے ہیں،اس ملک میں ایک صحافی ہے کہ جو ساری قدغنوں اور تشدت کے ماحول کے باوجود آوازحق بلند کررہا ہے۔ہمارے ہاںآزادی اظہار ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جو کسی طور پرحل ہی نہیں ہو پا رہا ہے ،اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت کو متنبہ ضرور کیا ہے کہ آزادی اظہار پر قدغن نہ لگائے

،لیکن حکومت اپنے خلاف کوئی بات سننے کیلئے تیار ہی نہیں ہے ، ہر دور اقتدار میں حکمرانوں نے اپوزیشن کی تنقید پر قد غن لگائی ہے ،اس بار بھی وہی ریت دہرائی جارہی ہے ،اتحادی حکومت اداروں پر تنقید کو جواز بنا کر جو اپنے مخالفین کے خلاف مقدمات اور بندشیں لگارہی ہے ،لیکن یہ سب کچھ کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ خود کیا کرتے رہے اور اب کیا کررہے ہیں ،سردست پاکستان میں ایسا مسئلہ ہوگیا ہے

کہ اس بارے میں جو حکمران اور طاقتور ادارے فرمادیں، وہی قانون ہو جاتا ہے، لیکن اس بارے پاکستان میں نہایت سنجیدگی سے قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے،اس کے بعد آزادی اظہار کے نام پر غیر ذمہ داری کا مظاہرے کرنے والوں کی گرفت ضرورکی جائے ،کیونکہ کے ہر آزادی کا وجود اس سے منسلک ذمہ داری کو نبھانے سے ہی قائم رہ سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں