ملک بھر میں ایک طرف سیلاب نے قیامت برپا کررکھی ہے تو دوسری جانب بڑھتی مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی 154

سیلاب پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ !

سیلاب پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ !

ملک بھرمیں سیلاب سے عوام کا برا حال ہے، ایک طرف غریب کی جانیں ضائع ہو رہی ہیں تو دوسری جانب مال و اسباب پانی میںڈوب چکا ہے ،سیلاب متا ثرین امداد کیلئے حکومت کی جانب دیکھ رہے ہیں ،لیکن حکومت اوراپوزیشن ایک دوسرے سے دست و گریباں ہے ، اتحادی حکومت کو عوام کی کوئی فکر ہے نہ سیلاب زدگان کا کو ئی خیال ہے ،وہ تحریک انصاف قیادت کیخلاف کارروائیاںکر کے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار کا بدلہ چُکانا چاہتے ہیں،اس انتقامی سیاست میں سب سے زیادہ نقصان عوام کا ہورہا ہے ،

عوام بھوکے مر رہے ہیں اورکوئی پوچھنے والا نہیں، سیاسی قیادت سیلاب زدگان کی مدد کی بجائے سیلاب پر سیاسی پوائنٹ سکونگ کر نے میں لگی ہے ، خدارا! اس وقت مفاداتی سیاست سے اجتناب کرتے ہوئے صرف عوام کو اس ناگہانی مصیبت سے نجات دلائیں،اگر سیاسی قیادت نے اپنا رویہ نہ بدلا تو عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا اور سیلاب میں ڈوبتے لوگ اپنے ساتھ مفاد پرست قیادت کو بھی ڈبودیں گے۔
اس میں شک نہیں کہ ملک ایک بڑے ہی کڑے امتحان سے گزر رہا ہے، اِس وقت ملک کو سیاست کی نہیں ، یکجہتی کی ضرورت ہے، تاکہ مصیبت میںگھرے لوگوںکی مدد کی جا سکے، لیکن اتنی بڑی آزمائش کے باوجود ہمارے سیاست دانوں کا چلن ہی نہیں بدل رہا ہے، سیلاب کی تباہ کاریوں میں بھی سیاست اپنے زوروں پر ہے، ایک دوسرے پر الزامات لگائے جا رہے ہیں،یہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا موقع ہے

کہ اتنی زیاہ سیلابی تباہی کے باوجود قوم سیلاب زدگان کی امداد کے لیے یکسو نہیں ہو پا رہی ہے، اس سیلابی تباہی میں سیاسی جلسے ہو رہے ہیں تو کہیں پریس کانفرنسوں کے ذریعے ایک دسرے کو رگیندا جارہا ہے،ایک طوفانِ سیاست برپا ہے کہ جس میں سیلاب زدگان کی آہ و پکار کہیں دب کر ہی رہ گئی ہے۔
اتحادی حکومت اور اپوزیشن قیادت آئے روز سیلاب زگان کی امداد و بحالی کی باتیں تو بہت کرتے ہیں ، لیکن ابھی تک ماسوائے فوٹو سیشن کے عملی طور ایسی کوئی امدادی اور بحالی کی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آرہی ہیں، اگر اتحادی اور اپوزیشن قیادت ایک دوسرے پر الزام تراشی کی سیاست کرنے کے بجائے سیلاب زدگان کی تھوڑی سی بھی عملی طور پر مدد کر لیتے تو آج حالات قدرے مختلف ہوتے،

لیکن سیاسی قیادت کی تر جحات میں تو کبھی عوام رہے ہی نہیں ہیں ،انہیں سیاست کے لیے ایشو چاہئے اور ان کیلئے سیلاب بھی ایک ایشو کے علاوہ کچھ نہیں ہے ، ملک آدھے سے زیادہ ڈوب گیا ہے ،لیکن سیاسی قیادت ایک دوسرے کو دیوار سے لگانے اور گرانے میں لگی ہوئی ہے، یہ سیاست میں ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کانہیں ،بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر سیلاب زدگان کی امداد کا وقت ہے،

حکومتی حلقوں کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ صبح و شام عمران خان کی گردان کرنے کی بجائے سیلاب متاثرین پر توجہ دیے، یہ سیلاب پچھلی حکومت کی وجہ سے نہیں آیا، یہ آسمانی آفت ہے ،اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اجتماعی کوششوں کی انتہائی ضرورت ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ہماری سیاسی قیادت ادراک کرنے کیلئے تیار ہی نہیں ہے کہ یہ ایک قومی امتحان کا وقت ہے، وہ اسے معمول کی بات سمجھ رہے ہیں، ملک بھر میں کروڑوں افراد کھلے آسمان تلے بیٹھے سیاسی قیادت کی طرف دیکھ رہے ہیں،

اس صورت حال میں سیاست کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے ،یہ موقع تو صرف اس بات کا تقاضا کر رہا ہے کہ قوم کو متحد کر کے اس آفت کے اثرات سے نمٹنے کے لیے تیار کیا جائے،اِس وقت تو بات ایک ہی نکتے پر ہو نی چاہئے کہ ملک کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے کیسے نکالا جائے ،ملکی معیشت پہلے ہی تباہی کا شکار ہے ،اس پر سیلاب کی تباہ کاریوں کے زخم ابھی تازہ ہیں، اس لیے اندازہ نہیں ہو رہا ہے

کہ اصل میں نقصان کتنا ہوا ہے، سیلاب کا پانی جب اترے گا اور حالات نارمل ہوں گے تو اصل صورت حال سامنے آئے گی جو بہت زیادہ تکلیف دہ بھی ہو سکتی ہے۔یہ وقت باہمی انتشار کا نہیں اتحاد و یکجہتی کا ہے ، ملک میں یکجہتی نظر آئے گی تواس مشکل گھڑی میں دنیا بھی ہماری مدد کی طرف متوجہ ہو گی،سیاسی انتشار اور جلسے جلوسوں کو دیکھ کر کسی کو بھی نہیں لگتا کہ ہم اتنی بڑی تباہی سے دوچار ہیں،

اس حوالے سے صدرِ مملکت نے بھی سیاسی قیادت کو پوائنٹ سکورنگ کی سیاست سے گریز کا مشورہ دیا ہے ،اس مشورے کو صائب جان کر تمام سٹیک ہولڈرز کو سیلاب زدگان کی مدد پر کمر بستہ ہو جانا چاہیے، سیاسی قیادت کو ایک دسرے کو دیور سے لگانے اور گرانے کی بجائے اس پہلو پر مل بیٹھ کر غور کرنا چاہئے کہ اس بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی کے بعد ملکی معیشت کو اس کے اثرات سے کیسے نکال کر نارمل اور خوشحال زندگی کی طرف لوٹنا ہے ،یہ بظاہر مشکل ضرور ،مگر ناممکن نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں