132

مادری زبان اردو لکھنے والوں کی، اردو سے بے توجہی

مادری زبان اردو لکھنے والوں کی، اردو سے بے توجہی

نقاش نائطی
۔ +966562677708۔

کل کا واقعہ اور ہمارا فریضہابھی کچھ سالوں قبل تک،نائطی زبان کو،کوکنی زبان کی موسیری زبان قرار دینے والی آواز معاشرے میں گونجنے سے پہلے تک، زمانہ ماقبل انگریز راج سے، آزادی ھند کے ان 75 سالوں میں، ملک گیر سطح پر ہونے والی مردم شماری ہو کہ سرکاری دفاتر میں اندراج کرتے تناظر میں،

اہل نائط و خصوصا اہل بھٹکل کو یہ امتیاز رہا ہے کہ انہوں نے، ہمیشہ ہی سے اردو زبان کو، اپنی مادری زبان نہ صرف سمجھا ہے، بلکہ اردو سے اپنے پیار و محبت بتانے اور جتانے کے لئے، کنڑا زبان بولے جانے والی اس سنگلاخ وادی میں، اردو سے اپنی محبت ثابت کرنے، نہ صرف ہر کچھ کچھ سالوں بعد، ملک گیر پیمانے کے شعراء کرام کو وطن عزیز بھٹکل بلاکر، شاندار مشاعروں کا اہتمام کرتے ہوئے،

اپنی اردو دوستی کاتبوت بھی دیا ہے، بلکہ اردو ادب کو معاشرے میں پروان چڑھانے کے لئے، مختلف ناموں سے مختلف ادبی بزم قائم کرتے ہوئے، علاقے میں، اردو مشاعروں کا اہتمام، وقت وقت سے منعقد کرتے ہوئے،معاشرے میں، اردو زبان کو نہ صرف اصلی لکھنوی لب و لہجے میں بولتے ہوئے، اردو زبان کو حیات دوام بخشا ہے بلکہ اہل بھٹکل کا بچہ بچہ جس شستہ انداز سے اردو زبان میں گویائی کرتا پایا جاتا ہے،

آردو کا گہوارہ تسلیم کئے جانے والا شمالی ھند لکھنو اودھ بھوپال کا اردو دان طبقہ بھی، اردو زبان کے جنوب ھند کے گھر، نظامی دور کے حیدر آباد والوں کے دکھنی لہجے کے مقابلے، اردو زبان کے اصلی گھر لکھنوی انداز لب و لہجہ سے ہم آہنگ، بھٹکل والوں کے خالص لہجہ گویائی سے ششدر سا ہوکر رہ جاتا پے۔ اس کے لئے، ہمیں اپنے اسلاف انجمن، خصوصا مدراس مولانا کمپنی کے بانی، سید ابوبکر مولانا صاحب، شاہ بندری ابوبکر صاحب اور سید جعفر مولانا صاحب کی دور اندیشی کو فراموش نہیں کرنا چاہئیے،

جنہوں نے، انجمن کے ابتدائی دنوں میں ہی,اپنے مشن آگہی مقصد سفر جنوب ھند پر مدراس ڈیرہ ڈالے ہوئے حضرت مولانا سید سلیمان ندوی علیہ الرحمہ اور مدراس میں ان کا قیام مولانا لنگی کے مہمان خانے ہی میں رہتے ہوئے، سید سلیمان ندوی سے درخواست و التجا کی تھی کہ آل بھٹکل کی نوجوان نسل کی دینی اقدار آبیاری کے لئے،ندوہ سے فارغ کسی لائق تدریب و تربیت استاد کو بھٹکل بھیجیں۔

مولانا سید سلیمان ندوی،ان ایام ندوہ العلماء کے ذمہ داروں میں تھے۔ ہماری معلومات کے مطابق ندوہ کا پہلا طلبہ کا دستہ عالمیت فراغت کے بعد، آپنے اساتذہ کی دست شفقت لینے حاضر ہوا کرتا تھا۔ سید سلیمان ندوی کی نظر اپنے ایک شاگرد خاص پر تھی۔جو تھے تو کسی جاگیردار کے فرزند، لیکن نہایت خلیق مزاج کے عالم تھے

۔ مولانا کے استفسار پر انہوں نے کہا کہ اب طب کی تعلیم پوری کرنے کا ارداہ ہے تاکہ دکھتی انسانیت کی خدمت کرسکوں۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے بھٹکل کا غائبانہ تعارف کرتے ہوئے کہا ارضی سقم زد کے بجائے اخروی سقم زد مریضوں کی شفایابی بیڑہ کیوں نہیں اٹھاتے؟ آپ کی محنت و کوشش سے آل عرب کا جنوب ھند کا ایک پورا معاشرہ، مستقبل کے داعی اسلام کے طور تیار کیا جا سکتا ہے۔اور یوں مولانا کمپنی کے سربراہان کی فکر سے،

اورحضرت مولانا سید سلیمان ندوی کے راغب کرنے پر، ندوہ العلماء کے فارغ پہلے دستہ کے شہسوار حضرت مولانا عبد الحمید ندوی، انجمن حامی المسلمین کے استاد کی حیثیت بھٹکل تشریف لائے تھے، انہی کی تدریب و تربیت شروع میں انجمن حامی المسلمین بھٹکل اور انکے تقاعد ہو واپس لوٹ جانے کے بعد، انجمن حامی المسلمین کی شاخ کے طور ساٹھ کے دہے میں قائم ہوئے جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں، کچھ سال ان کی خدمات کا نتیجہ، اہل بھٹکل کی دین فہمی و عمل پیرائی کے اثرات، آج بھی معاشرے کی تین چوتھائی نسل جدید کو، دینی اقدار کے ساتھ عصری تعلیم حاصل کراتے نہ صرف نظر آتے ہیں،

بلکہ انجمن حامی المسلمین کے ساٹھ کے دہے میں نکلی شاخ، آج بھٹکل بلکہ قرب و جوار بھٹکل کی دینی نہج تدریب و تربیت کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہے، بلکہ انجمن حامی المسلمین بھٹکل میں مولانا عبدالحمید ندوی کی تقرری کا یہ فائدہ ہوا کہ نہ صرف انجمن کے بعد کے دنوں میں بلکہ جامعہ اسلامیہ کے اب کے دو ایک دہے قبل تک، سابقہ دنوں میں، اکثر اساتذہ کرام آردو ادب کے گہوارے شمالی ھند ہی سے لائے جاتے تھے۔

انہی اساتذہ کرام کی محنت و جانفشانی کا نتیجہ، کنڑا تلگو ٹمل ملیالم بھاشاؤں والے اس سنگلاخ علاقوں درمیان ، شہر بھٹکل ہی ایسا زرخیز علاقہ نظر آتا ہے جہاں اردو زبان اس کے اصلی جائے پیدائش لکھنو اودھ بھوپال کی طرز سلیس و باوقار انداز بولی اور لکھی پڑھی جاتی ہے۔

جہاں قوم نائط کی اردو زبان آبیاری کا تذکرہ ہو اور قومی فرزند ماسٹر خیال کا تذکرہ نہ ہو تو، ان کی قوم کے تئیں خدمات کا حق ادا نہ کرنے والی بات ہوگی۔ نقاش نائطی اور ابن بھٹکلی کی حیثیت سے ہمارے قارئین کی اکثریت؛ جہاں ہمارے تفکر و متونوع اسعت نظری کے شیدائی ہیں وہیں پر، لکھنے میں ہوئی بعض خامیوں کے باوجود، اردو زبان پر ایک حد تک ہماری گرفت کی مدح سرائی بھی کرتے پائے جاتے ہیں،

اسکول ایام ابتدائی تانوی تعلیم ہماری جامعہ اسلامیہ ہی میں ہوئی تھی،ثانوی اعلی درجات کی تعلیم انجمن حامی المسلمین میں المحترم خیال ماسٹر باطن و قدیر ماسٹر ہی کی نگرانی میں ہوئی تھی۔ کالج کی تعلیم مولوی منصور علی ندوی، عمر حیات خان غوری اور پروفیسر رشید کوثر فاروقی کی تدریب و تربیت سے سنوری تو سعودیہ کے صنعتی شہر الجبیل قیام حصول معاش دوران اہل علم فارغین علیگڑھ کے قلبی تعلق و مختلف رفاعی بزمی تعلقات نے، کئی ایک عالمی مشاعروں کے انعقاد کا شریک ہمیں بنا،

اردو پر ہماری دسترس کو نکھرنے کا بھرپور موقعہ بھلے ہی فراہم کیا ہو، لیکن دسویں بورڈ امتحان میں پورے کاروار ڈسٹرکٹ اردو میں امتیازی نمبر ہمارا حاصل کرنا، یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ بچپن ہی میں، اردو دان اساتذہ کرام کی تدریب و تربیت، پھتر کی لکیر ثابت ہوا کرتی ہے اس موقع پر ہم خصوصا ماسٹر خیال علیہ الرحمہ و باطن و قدیر ماسٹر مدظلہ کا تشکر ادا ضروری سمجھتے ہیں

اپنے اصلی اثاث اردو لکھنے پڑھنے بولنے والی قوم اہل بھٹکل میں فرنگی انگریز زمام حکومت ہی کے وقت سے ان ایام تعمیر بلدیہ بھٹکل کی سابقہ عمارت پر آویزاں مقامی کنڑا زبان کے علاوہ اردو میں لکھی تحریر،”دفتر بلدیہ بھٹکل” سو سال قبل سے اہل بھٹکل کی اردو دوستی کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ ان چار دہوں میں،

اسی کے دیے بعد، خلیج کے باد بہاراں پیٹرو ڈالر نے، عالم کے انیک شہروں ملکوں میں معشیتی خوشحالی جہاں بکھیری ہے، وہیں بھٹکل کی تجارت پر بھی، اہل بھٹکل مسلم برادران ہی کا دبدبہ قائم یے۔ لیکن شکایت یہ ہے کہ اہل بھٹکل اپنی دوکانوں کے سائین بورڈ صوبائی کنٹرا و انگریزی زبان کے ساتھ اردو زبان سائین بورڈ لکھتے ہوئے، بھٹکل کی عام فہم اردو زبان درشانا یا دکھلانا،جہاں ضروری ہے، وہیں پر،

انگریزی اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہی نئی نسل کو، گھر میں ٹیوشن، اردو رسم الخط لکھنے پڑھنے کی تربیت دیتے ہوئے اور ساتھ ہی ساتھ ہر گھر میں اردو اخبارات و رسائل کی خریداری کرتے ہوئے، نئی نسل میں اردو زبان کو عام فہم بنانے کی جستجو بھی انتہائی ضروری ہے۔ہمارے رب کائینات کی طرف سے ہم پر اتاری گئی آسمانی کتاب قرآن مجید کو بغیر پڑھے، بغیر سمجھے،جزدانوں میں لپیٹے ،طاقوں میں سجائے رکھ دئیے جیسا، اپنی مادری زبان اردو سے اپنے عصری تعلیم یافتہ اولاد کو، نابلد رکھنے کی ہماری ان اداؤں نے، موجودہ دور کے مسلم منافرتی سنگھی دور حکومت میں، سو سال قدیم بلدیہ بھٹکل بورڈ پر لکھے گئے

اردو رسم الخط کی پیروی کرتے ہوئے، نئی تعمیر عمارت پرلکھی کنٹرا کے ساتھ اردو طرز تحریر پر، شرپسندوں کو منافرتی انداز اعتراض جتانے کا موقع دیا ہے۔ بلدیہ عمارت پر انگریزی و صوبائی کنڑا زبان کے ساتھ لکھی مقامی اردو تحریر کے خلاف شر پسندوں کی شرارت قانون و عدلیہ کی مدد سے نپٹائی جاسکتی ہے۔

کسی بھی صوبے کی زبان کو فوقیت دینا ضروری ہے صوبائی زبان کے ساتھ مقامی زبان میں لکھی تحریر،کسی بھی طور غیر قانونی نہیں ٹہرائی جا سکتی ہے۔ ایسے شرارتی قوم دشمن افراد سے سختی سے نمٹنے سے ہی انہیں مستقبل میں ان کے سازشی عزائم سے مانع رکھ سکتی ہے۔ وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں