148

معاشرہ کی کالی بھیڑیں اور مجبور قانون؟

معاشرہ کی کالی بھیڑیں اور مجبور قانون؟

تحریر، ترتیب: اکرم عامر سرگودھا
فون نمبر۔ 03008600610
واٹس ایپ نمبر: 03063241100
پنجاب یا وفاق کا کوئی آفیسر ہو یا صحافی، سیاستدان، قانون دان، تاجر، زمیندار حتی کہ ہر طبقہ میں جہاں نیک اور صالح با کردار لوگ ہوتے ہیں وہاں ہر طبقہ میں بدعنوان، ظالم اور لٹیرے بھی موجود ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کو معاشرے کی کالی بھیڑیں کہا جائے تو کوئی مضحکہ نہیں، معاشرے کی خواتین میں بھی ایسی بہت سی کالی بھیڑیں موجود ہیں جو گینگ بنا کر معاشرے میں شرفاء کو اپنے دام میں پھنسا کر انہیں لوٹنے میں مصروف ہیں، پنجاب کا کوئی ضلع ایسا نہیں ہے جس میں خواتین کے ایسے گروہ موجود نہ ہوں،

ان گروہوں میں شامل خواتین کا کام معاشرے کے سرمایہ دار شرفاء کو اپنے دام میں پھانس کر ان سے تعلقات قائم کرنے کے بعد ان سے بھاری رقوم بٹورنا شامل ہے، سرگودھا، فیصل آباد، لاہور، ملتان سمیت ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر سے اکثر اس نوعیت کے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں، اسی نوعیت کا ایک واقعہ سینئر کالم نگار میاں غفار احمد نے جنوبی پنجاب کی ایک لٹیری حسینہ کا واقعہ کچھ یوں بیان کیا ہے۔
ابھی تو پولیس ملک بھر میں سینکڑوں افراد کو بلیک میل کر کے لوٹنے والی کوٹ سمابہ ضلع رحیم یار خان کی عظمیٰ شہزادی بارے معلومات ہی اکٹھی کر رہی تھی کہ ملزمہ کی ضمانت بھی ہو گئی۔ میرے سامنے اِس کے خلاف درج مقدمات اور لوٹ مار کے ثبوتوں کی ایک پوری فہرست پڑی ہے۔ ایسا ملک جہاں ایک رکن اسمبلی بھاری عوامی نمائندگی کے ساتھ منتخب ہو اور دْوہرے شناختی کارڈ کی مشکوک کہانی پر تین سال تک نااہل رہا ہو جہاں ہزاروں بے گناہ سالہا سال سے جیلوں میں اذیت ناک زندگی گزار رہے ہوں،

ایسے ملک میں عظمیٰ شہزادی نامی عورت کئی شناختی کارڈ، کئی نام اور ایڈریس تبدیل کرکے کروڑوں لوٹ کر کوٹ سمابہ ضلع رحیم یار خان سے لاہور کے پوش علاقے میں رہائش اختیار کر چکی ہے اور کئی مرتبہ گرفتار ہونے کے باوجود اپنے لاتعداد سہولت کاروں کی بدولت 24 گھنٹوں میں رہائی پاتی رہی ہے اور اپنی گود میں لاکھوں روپے رکھ کر تصاویر بنواتی ہے۔ ایسا ملک جہاں کوئی سرکاری آفیسر اِس سے بلیک میل ہونے کے بعد اپنی اہلیہ اور بیٹی کی شادی کے لئے بنایا گیا زیور فروخت کر کے اِس عورت کے چنگل سے آزاد ہو جہاں میرٹ پر مقدمات درج کرانے کے خواہش مند تھانوں میں آئے روز دھکے کھائیں

اور رْسوا ہوں جہاں جیلوں میں اپنوں سے ملاقات کے لئے آنے والی خواتین کے لئے عزت بچانا مشکل کر دیا گیا ہو۔ وہاں کے پی کے کے سینئر سول جج سے پیسے بٹورنے اور لودھراں میں تعینات ایک ڈی ایس پی کو اْس کے ماتحت ملازمین کے سامنے اْس کے دفتر میں تھپڑ مارنے والی کے خلاف کوئی کارروائی شروع ہونے لگے تو سہولت کار آڑے آ جائیں؟ وہاں سے صاحب ثروت اور صاحب حیثیت افراد کا اپنی دولت سمیت کوچ کرنا ہی بہتر ہے۔ مجھے ایک اعلی سرکاری عہدے دار کا جملہ اکثر یاد آتا ہے جنہوں نے کہا تھا کہ یہ ملک تو ٹھیک نہیں ہو سکتا اس لئے ایسے ملک چل کر رہیں جو پہلے ہی سے ٹھیک ہو۔
چند جماعت پاس ایک آوارہ لڑکی کے خلاف چند سال قبل اہالیان کوٹ سمابہ کے دستخطوں کے ساتھ پولیس کے ڈی ایس پی کو دی گئی درخواست میرے سامنے پڑی ہے جس پر تمام سیاسی، سماجی اور تاجر تنظیموں کے عہدے داران کے دستخط موجود ہیں‘ درخواست کا متن کچھ یوں ہے۔ بخدمت جناب ڈی ایس پی صاحب صدر سرکل رحیم یار خان۔ جناب عالی! گزارش ہے کہ ایک عورت جو کہ کوٹ سمابہ کی رہائشی ہے،

مذکورہ عورت اہالیان کوٹ سمابہ کے لئے شدید پریشانی کا باعث ہے۔ یہ عورت شہر کے معزز حضرات کو ان کی دکانوں اور کاروباری اداروں میں جا کر پِسٹل دکھاتی ہے اور مختلف تھانوں میں مختلف ناموں سے درخواستیں دے کر شریف شہریوں کو بلاوجہ تنگ کر کے پریشان کرتی ہے اور رقم لے کر جان چھوڑتی ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ پولیس عملہ اور افسران بھی اِس سے خوف کھاتے ہیں۔ مذکورہ عورت شہر کے تمام دکانداروں کو بلیک میل کرتی ہے اور جھوٹی درخواستیں دے کر رقوم بٹورتی ہے۔ اِس کی ساری درخواستوں میں دستخط اور موبائل نمبر ایک ہی ہوتے ہیں۔ مذکورہ عورت کو پولیس کی آشیر باد حاصل ہے اور کئی مرتبہ بے گناہ شہریوں کو پولیس سے ملکر حوالات میں بند کروا چکی ہے۔ یہ پولیس اور بعض تنظیموں سے تعلق کا

کہہ کر عزت دار شہریوں کو ڈراتی ہے۔گزارش ہے کہ اِس خطرناک عورت کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے ، اْس درخواست پر درجنوں افراد کے دستخط ہیں اور یہ درخواست 2016ء میں 6 سال قبل دی گئی، اْن دنوں اِس خاتون نے جو کہ ایک مرحوم پولیس ملازم کی بیٹی بتائی جاتی ہے نے جرائم کی دنیا میں قدم رکھا تھا پھر پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کی سرپرستی میں چند ہی سالوں میں یہ اپنے شعبے میں پرموٹ ہوتی گئی

حتیٰ کہ اِس نے گورنر ہاوس لاہور کے ایک سینئر آفیسر کے خلاف بھی اِسی نوعیت کا مقدمہ درج کرایا جس قسم کا ملتان میں ڈپٹی سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کے خلاف درج ہوا۔ ایک جیسی فرضی کہانی مگر مختلف ناموں، مختلف شناختی کارڈ نمبروں اور مختلف ایڈریس کے ساتھ ساتھ مختلف ولدیت کے ساتھ پنجاب کے مختلف تھانوں میں یہ عورت اپنی عزت اجڑنے کے درجنوں مقدمات درج کرا چکی ہے۔ ریکارڈ سے

معلوم ہوتا ہے کہ پولیس کا 15 نظام اِس کے اشارے پر فوری حرکت میں آ جاتا ہے۔ تھانہ نواب ٹاون لاہور، تھانہ سْندر لاہور، تھانہ سیتل ماڑی ملتان سمیت پنجاب کے متعدد تھانوں کی پولیس اِس کی کال پر چند ہی لمحوں میں جائے وقوعہ پر پہنچتی ہے اور فرضی واقعہ کی فوری کارروائی بھی کرتی ہے۔
سی پی او ملتان خرم شہزاد حیدر اچھی شہرت کے حامل ہیں ، انہوں نے مجھے بتایا کہ اِس خاتون کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے

اور اب اِسے جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔ یا سزا ہو گی کیونکہ اْن کے پاس بھی ملک بھر سے معلومات پہنچ چکی تھیں مگر عظمی شہزادی کی تو ضمانت ہو گئی اور وہ بھی 30 ہزار کے ضمانتی مچلکوں کے عوض۔اور عظمی شہزادی کو پھر چھوٹ دے دی گئی کہ چل”محترمہ” عظمی شہزادی کسی اور کی عزت اور دولت پر ڈاکہ ڈال کہ یہاں لٹیروں کو ہی ہر قسم کی رعایت اور تحفظ میسر ہے، عدالتیں بھی انہیں ریلیف دیتی ہیں جن کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں انہی میں عظمی شہزادی بھی شامل ہے۔
یہ تو ایک بااثر لڑکی کی کہانی ہے جو جج سے لے کر افسران تک کو بلیک میل کر رہی ہے، مگر اسے کوئی پوچھنے والا نہیں، مگر کراچی سے خیبر تک ہر چھوٹے بڑے شہر میں کئی عظمی شہزادیاں موجود ہیں جو سادہ لوح عوام کو اپنے شکنجے میں پھانس کر انہیں کنگلا کر دیتی ہیں اور پھر نئے شکار کی تلاش میں نکل پڑتی ہیں، مجھے یہاں 2019 اور 2020 کے دو واقعات یاد آ گئے

جن میں سرگودھا میں اسی نوعیت کے تین گینگوں نے شرفاء کیخلاف تھانوں میں الگ الگ درخواستیں دیں اور ان سے لاکھوں روپے فی کس بٹور لئے، تو 2019 میں معاملہ حسن مشتاق سکھیرا اور 2020 میں ایس پی انویسٹی گیشن سید عباس شاہ کے علم میں آ گیا تو ان تینوں گینگوں کیخلاف دہشتگردی کے مقدمات درج ہوئے تو عندیہ کھلا کہ ان گروہوں کے عقب میں پولیس، قانون کی تشریح کرنے والے وکیل اور کئی سیاستدان ہیں ، پھر کیا جنہوں نے مقدمہ کے مدعیوں کو اتنا مجبور کیا کہ وہ عدالتوں میں یہ بیان دینے پر مجبور ہو گئے

کہ زیر حراست گروہ ہمارے ملزم ہی نہیں ہیں، پھر عدالتوں نے وہی کیا جو عظمیٰ رانی کے کیسوں میں ہوتا آیا ہے،سو ان حالات میں ایسے گروہوں پر قابو پانا پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بس کی بات نہیں کیونکہ معاشرے کو لوٹنے والی عظمیٰ شہزادیوں جیسی کالی بھیڑوں کی پشت پناہی بھی معاشرے کا سفید پوش طبقہ کرتا ہے، جب تک پشت پناہی کرنے والے شرفاء موجود ہیں یہ گھنائونے گروہ ختم نہیں ہو سکیں گے، انہیں ختم کرنے کیلئے پشت پناہی کرنے والے شرفاء کو ختم کرنا ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں