کیا 140 کروڑ بھارت واسیوں کو حقیقی آزادی میسر ہے؟ 43

کیا 140 کروڑ بھارت واسیوں کو حقیقی آزادی میسر ہے؟

کیا 140 کروڑ بھارت واسیوں کو حقیقی آزادی میسر ہے؟

۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707

کیا اب کی 2024 عام انتخاب پورے بھارتیہ عوام کی آگہی بیداری باوجود، سازش کنان سنگھی قوتیں، عوامی آراء کے خلاف سنگھی حکومت سازی میں کامیاب بھی ہوجائیں گی؟ پڑوسی دشمن ملک کے عوامی لیڈر نے جس طرح سے فوجی حکومتی انتخابی دھاندلی کے خلاف، خود جیل کی سلاخوں،اور ان فوجی حکمرانوں کی سعوبتوں کو جھیل کر، 25 کروڑ عوام کو حقیقی آزادی دلوانے کی سعی ناتمام کررہے ہیں، کیا 140 کروڑ اس مہان ھندستان میں عمران خان جیسا کوئی مخلص لیڈرنہیں ہے؟ جو 140 عوام کو ان انگرئوں کے کل کے غلام ھندو مہاسبھائیوں کی آج کی اولاد ،ان آرایس ایس بی جی پی والوں کے اس مہان دیش بھارت کو یرغمال بناتے، گندمی رنگی فرنگیوں کے مکر جال سے 140 کروڑ عوام کو حقیقی آزادی دلادے؟

الیکش 2024میں الیکشن کمیشن کے مشکوک رویہ پر مشہور نقاد قوم و ملک ملت محترم سمیع اللہ خان کا تجزیہ اس دیش کے پڑھے لکھے حلقہ تعلیم یافتگان کے لئے لمحہ فکریہ مانند ہے۔ اور خاص کر بھارت کو انگریزی تسلط سے آزاد کرانے والی سواسو سالہ آل انڈیا کانگریس کے احتجاج سے ماورا، خانوش تماشائی سا معصومانہ رویہ پر عام ہندستانیوں کو مستعجب کئے ہوئے ہے

کیا مودی کو جتانے کے لئےالیکشن کمیشن نے بڑا گھپلہ کردیا ہے ؟
الیکشن کمیشن کے تازہ ترین ریکارڈ میں گڑبڑی کا خلاصہ:
✍: سمیع اللہ خان
دو مراحل کی پولنگ مکمل ہونے کے بعد بھی الیکشن کمیشن نے تین سے چار دنوں تک ووٹنگ کا حتمی ریکارڈ تفصیلی ترتیب والا شائع نہیں کیا تھا مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے بار بار مطالبہ کرنے کے بعد کل 30 اپریل کو الیکشن کمیشن نے دو مراحل کے انتخابات کی تفصیل شائع کی ہے،
پہلا سوال تو یہی کہ اتنے دنوں تک یہ ریکارڈ روک کر اس ڈاٹا کے ساتھ الیکشن کمیشن کیا کررہا تھا ؟
الیکشن کمیشن نے جو ریکارڈ 30 اپریل کو پیش کیا ہے اس کے مطابق ان دو مراحل میں ووٹنگ فیصد ٪66.71 رہا ۔
لیکن 26 اپریل کی شام کو الیکشن کمیشن نے بتایا تھا کہ ووٹنگ فیصد ٪60.95 رہا ہے، اب اُسی 60 فیصد کی ترتیب پر کُل تفصیلات شائع کرنی تھی کہ کہاں کتنی ووٹنگ ہوئی اور تناسب کیا رہا ؟
بہت زیادہ تکنیکی تفصیلات میں نہ جاتے ہوئے ہمارے اردو داں قارئین کے لیے بہت آسان الفاظ میں ہم یہ مسئلہ سمجھاتے ہیں:

❸ دنوں بعد جب الیکشن کمیشن نے تفصیلی ڈاٹا شائع کیا ہے تو اس میں ووٹنگ فیصد 26 اپریل کو درج کیے ہوئے عدد سے 3 سے 5 فیصد بڑھ گیا ہے، اچانک یہ اضافہ کیسے ہوگیا اور یہ ووٹنگ کن لوگوں نے کی؟ کیونکہ یہ کوئی معمولی فرق نہیں ہے بلکہ بڑی گڑبڑی کا اشارہ ہے،
الیکشن کمیشن نے 26 اپریل کے دن ووٹنگ کی شام میں جو ریکارڈ اپنی آفیشل سائٹ پر پیش کیا تھا کہ ووٹنگ فیصد ٪60 رہا ہے اس کا اسکرین ریکارڈ اس مراسلے کے ساتھ ملحق ہے ۔
الیکشن کمیشن کو اس اضافی فیصد کی ہیر پھیر کی وضاحت کرنی چاہیے ۔
تازہ شائع کیے گئے ریکارڈ میں بھی کئی مسائل ہیں جیسے کہ آپ دیکھیں گے کہ ہر جگہ 66…..66…اور….66 کا ہی عدد ہے، وہ بھی فیصد کے اعتبار سے ، کیا یہ نارمل لگتا ہے آپکو؟ ایسا نہیں لگتا کہ یہ سب جلدبازی میں بڑھا کر جاری کردیا گیا ہے ؟
نیز اس میں بھی کل اعداد موجود نہیں اب اگر ان کو جانچنا ہو تو صرف فیصد کی موجودگی میں ووٹروں اور ووٹنگ کے عمل کو کیسے جانچا جائے گا ؟ یہ سوال کئی ماہرین نے اُٹھایا ہے ۔ اگر ووٹروں اور ووٹنگ کا حتمی نمبر موجود نہیں اور اسے فیصد میں چھپایا گیا ہے تو کل کو 10.یا 20 یا 100/50 کے فرق کی کوئی بھی گڑبڑ ہوتی ہے تو اسے کیسے پکڑا جائے گا ؟
مودی اور بھاجپا کو مسلمانوں کےخلاف نفرت پھیلانے کی کھلی چھوٹ دینے کے معاملے میں الیکشن کمیشن پہلے سے مشتبہ ہے اور اب ایسے ہی کئی اور مسائل اور سوالات الیکش کمیشن کے دو مراحل کی ووٹنگ کرانے پر کھڑے ہوچکے ہیں،

دو مراحل کی ووٹنگ میں ہی الیکشن کمیشن پر ایسا سوالیہ نشان لگ رہا ہے تو آپ اندازہ لگائیں کہ آئندہ انتخابات کس قدر مشکوک و مشتبہ ہوں گے ؟
سب سے پہلے تو مجھے آج تک یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ مشین سے ووٹنگ کے عمل میں ڈیڑھ سے پونے دو مہینہ کیوں لے رہے ہیں؟ آج کے اس ٹیکنیکل دور میں مہینہ بھر الیکشن کا ڈاٹا اپنے پاس رکھ کر ، مہینے بھر اور چالیس دنوں بعد کیوں رزلٹ جاری کیا جائے گا ؟ دنیا میں ایسا کہاں ہوتا ہے ؟ ٹکنالوجی کا سہارا بھی لے رہے ہیں اور غیر تکنیکی انداز بھی ہے یہ چور۔پولیس کا کھیل ہے کیا؟
ان سب کے دوران مجھے اپوزیشن پارٹیوں کی شرافت سمجھ میں نہیں آتی کہ انہوں نے اتنے مشکوک ترتیب کے انتخابات قبول کیوں کیے؟ اور پھر مسلسل مشتبہ طرزِ انتخابات پر یہ لوگ راضی کیوں ہیں ؟ اور یہ جو ریکارڈ میں 5 فیصد کی واضح گڑبڑی ہے اس پر کیا صرف نصیحت کردینا کافی ہے ؟ آخر اپوزیشن پارٹیاں اتنے زیادہ مشکوک انتخابات کے خلاف کوئی سخت اقدام کیوں نہیں کرتی؟ یا پھر آخر میں نتائج جو بھی ہوں شریف طلباء کی طرح قبول کرکے عوام کو جمہوری بیوقوف بنائیں گے ؟ ان کو پہلے سوال کرنا چاہیے کہ انہیں جیتنا ہے یا نہیں؟ جس جگہ پر اپوزیشن کو سب سے زیادہ سختی سے احتجاج کرکے الیکشن کمیشن کو گھپلہ کرنے کے انجام سے ڈرانا چاہئے وہاں پر اپوزیشن بالکل نامردوں کی طرح چھپا بیٹھا ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں