117

موجودہ حالات میں انتخابات ممکن نہیں: الیکشن کمیشن کے وکیل کا سپریم کورٹ میں مؤقف

موجودہ حالات میں انتخابات ممکن نہیں: الیکشن کمیشن کے وکیل کا سپریم کورٹ میں مؤقف

موجودہ حالات میں انتخابات ممکن نہیں: الیکشن کمیشن کے وکیل کا سپریم کورٹ میں مؤقف

انتخابات میں تاخیر ہو تو منفی قوتیں چال چلتی ہیں، بطور آئین کے محافظ عدالت کب تک خاموش رہے؟ الیکشن کمیشن نے حل نہیں نکالا، اب عدالت کو اصول وضع کرنا ہوگا: چیف جسٹس— فوٹو: فائل
انتخابات میں تاخیر ہو تو منفی قوتیں چال چلتی ہیں، بطور آئین کے محافظ عدالت کب تک خاموش رہے؟ الیکشن کمیشن نے حل نہیں نکالا، اب عدالت کو اصول وضع کرنا ہوگا: چیف جسٹس— فوٹو: فائل

پنجاب انتخابات کے فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انتخابات میں تاخیر سے منفی قوتیں سرگرم ہو کر چالیں چلنا شروع ہوجاتی ہیں، عوام اپنے نمائندوں کا انتخابات چاہتے ہیں، الیکشن کمیشن دیر کیوں کر رہا ہے؟ کتنی اور دیر کرے گا؟

 پنجاب میں انتخابات کے سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست کی سماعت کے دوران  چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے آئین کا تحفظ کرنا ہے، کب تک یہ سب برداشت کریں؟

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ نظرثانی درخواست مرکزی کیس کا تسلسل ہوتا ہے جس پر  چیف جسٹس بولے  آپ ہوا میں تیر چلاتے رہیں ہم آسمان کی طرف دیکھتے رہیں گے، کم ازکم ٹارگٹ کرکے فائر کریں، پتا توچلے کہنا کیا چاہتے ہیں۔ 

سپریم کورٹ میں پنجاب میں انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کےخلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پرسماعت ہوئی۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ موجودہ حالات میں انتخابات ممکن نہیں، نیوٹرل انتظامیہ نہیں ہوگی تو شفاف انتخابات کیسے ممکن ہوں گے؟

بینچ کے رکن جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کا فرض ہے، صوابدید نہیں، کبھی الیکشن کی کوئی تاریخ دیتے ہیں کبھی کوئی، پھر کہتے ہیں انتخابات ممکن نہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا آپ یہ حقیقت تسلیم کرتے ہیں کہ انتخابات 8 اکتوبر کو بھی نہیں ہوں گے؟ انتخابات میں فوج کی کیا ضرورت ہے؟ فوج تو صرف علامتی طور پر ہوتی ہے، 9 مئی کو غیرمعمولی واقعات ہوئے جن کا کچھ کرنا چاہیے۔

چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ خود کہتے ہیں آئین کی روح جمہوریت ہے مگر کب تک انتخابات آگے کرکے جمہوریت قربان کرتے رہیں گے؟ تاریخ میں کئی مرتبہ جمہوریت قربان کی گئی، جب بھی جمہوریت کی قربانی دی گئی کئی سال نتائج بھگتنے پڑے۔

بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ صوبائی اسمبلی 6 ماہ میں تحلیل ہو جائے تو کیا ساڑھے چار سال نگران حکومت ہی رہے گی اور قومی اسمبلی تحلیل ہونے کاانتظار کیا جائے گا؟

وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے کہا  کہ آرٹیکل 254 سے 90 دن کی تاخیر کو قانونی سہارا مل سکتا ہے اور مداوا بھی ممکن ہے جس کیلئے ساڑھے چار سال کیلئے نئی منتخب حکومت آسکتی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا نگران حکومت کی مدت میں توسیع آئین کی روح کے منافی ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا ملک منتخب حکومت ہی چلا سکتی ہے، جہموریت کو بریک نہیں لگائی جاسکتی ہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں صرف وسائل نہ ہونے کا ذکر تھا، اب کمیشن سیاسی بات کر رہا ہے۔ بلوچستان میں انتخابات کا ٹرن آؤٹ 60 فیصد تھا،انتخابات تاخیر کا شکار ہو تو منفی قوتیں چال چلتی ہیں، بطور آئین کے محافظ عدالت کب تک خاموش رہے گی؟

اس پر  وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات سے الیکشن کمیشن کے خدشات درست ثابت ہوئے جس پر  جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 9 مئی کے واقعے کے چکر میں الیکشن کمیشن آئین کی منشا کو بھلا رہا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو حکومت سے ٹھوس وضاحت لینی چاہیے، ارکان اسمبلی کیلئے 20 ارب روپے کی سپلیمنٹری گرانٹس منظور ہوئیں، الیکشن کمیشن کو  بھی 21 ارب ہی درکار تھے، الیکشن کمیشن نے 4 لاکھ 50 ہزار سکیورٹی اہلکار مانگ لیے، ساڑھے 4 لاکھ تو ٹوٹل آپریشنل فوج ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ قومی اسمبلی کے انتخاب میں صوبائی حکومت کی مداخلت روکی جاسکتی ہے، الیکشن کمیشن شفاف اور مضبوط ہو تو مداخلت نہیں ہوسکتی، الیکشن کمیشن نے خود حل نہیں نکالا، اب عدالت کویہ اصول وضع کرنا ہوگا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت 29 مئی تک ملتوی کردی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں