183

روس کی فوج نےدارالحکومت کیف پردوبارہ حملےشروع کردیے ہیں،یوکرینی

روس کی فوج نےدارالحکومت کیف پردوبارہ حملےشروع کردیے ہیں،یوکرینی

روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کا آج چھٹا روز ہے اور دونوں طرف سے بھاری جانی و مالی نقصانات کی اطلاعات ہیں۔

یوکرینی فوج کا کہنا ہےکہ روس کی فوج نےدارالحکومت کیف پردوبارہ حملےشروع کردیے ہیں جس کے بعد کیف میں صورتحال کشیدہ ہے، روس فوجی اور سویلین اہداف پرگولہ باری جاری رکھے ہوئے ہے۔

روسی صدر نے اتوار کے روز نیٹو کے رکن ممالک کی جانب سے جارحانہ بیانات اور معاشی پابندیوں کے ردعمل میں روسی فوج کو حکم دیا تھا کہ وہ روسی جوہری اسلحے سے لیس یونٹ کو تیار رکھیں، اس حکم کے بعد جوہری میزائل فورسز  اور بحر الکاہل کے بیڑے کو جنگی ڈیوٹی پر فائز کر دیا گیا ہے۔

روس کی جانب سے جوہری میزائل فورسز کو الرٹ کرنے پر دنیا بھر میں تشویش پائی جاتی ہے۔

روس  اور یوکرین کے درمیان عسکری حوالے سےکوئی موازنہ نہیں ہے، دنیا کی دوسری بڑی عسکری طاقت روس کی افواج مسلسل یوکرین میں پیش قدمی کر رہی ہیں۔

روس کس حد تک آگے جائے گا؟

اب دیکھنا یہ ہےکہ یہ معاملہ کہاں جاکر رکے گا اور روس اس جنگ میں کس حد تک جاسکتا ہے۔

اب تک کی صورتحال کے بعد یہ واضح ہےکہ روس یوکرین کے بڑے شہروں پر قبضہ کرکے یوکرینی صدر زیلنسکی کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتا ہے۔

یوکرینی صدرکا کہنا ہےکہ وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ روس نے پہلا ہدف مجھے بنارکھا ہے اور دوسرے نمبر پر میری فیملی نشانہ بن سکتی ہے۔

روس کی جانب سے کہا جاتا رہا ہےکہ اس کا مقصد یوکرین سے جبر اور نازیوں کا خاتمہ کرنا ہے تاہم یوکرین کے حوالے سے روسی صدر پیوٹن مستقبل میں کیا عزائم رکھتے ہیں اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔

پیوٹن نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ وہ یوکرین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور کیف میں روس کی کٹھ پتلی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ برطانوی میڈیا کے مطابق ایسی خفیہ اطلاعات بھی ہیں کہ پیوٹن یوکرین کے دو حصے کرنا چاہتے ہیں۔

فوٹو: بشکریہ،واشنگٹن پوسٹ
فوٹو: بشکریہ،واشنگٹن پوسٹ

برطانوی میڈیا کے مطابق روسی فوج کو یوکرین میں سخت مزاحمت کا سامنا ہے، اس لیے روس اپنے اہداف کے حصول کے لیے سویلین آبادی پر بمباری سے بھی نہیں ہچکچارہا ، تاہم روس کی جانب سے اس کی واضح تردید کی گئی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ صرف فوجی تنصیبات کو نشانہ بنارہا ہے۔

 موجودہ صورتحال میں فوری طور پر روس کو  مشرقی یورپ کے دیگر ممالک سےکوئی خطرہ نہیں ہے تاہم نیٹو  اپنے دفاع کو مضبوط بنا رہا ہے اور اپنے رکن ممالک میں فوجیوں کی تعداد بڑھا رہا ہے۔

یوکرین پر حملے سے قبل تک روس نے مشرقی یوکرین میں روس نواز باغیوں پر توجہ مرکوز رکھی تھی تاہم صورتحال اس وقت تبدیل ہوئی جب پیوٹن نے ڈونیسک اور لوہانسک کو آزاد ریاستوں کے طور پر تسلیم کرلیا، ساتھ ہی روسی صدر نے واضح کردیا کہ اب یہ علاقے یوکرین کاحصہ نہیں ہیں، پیوٹن نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ یوکرین کے مزید علاقوں پر اپنے دعوے پر قائم ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں