کون بے جا مداخلت کر سکتا ہے ! 76

اصل مشکل فیصلہ کون کرے گا !

اصل مشکل فیصلہ کون کرے گا !

اس اتحادی حکومت کو قائم ہوئے تین ماہ ہونے کو آرہے ہیں ،مگر اس کی واضح سمت ابھی تک متعین نہیں ہوپارہی ہے، آئے روز کابینہ میں مشیر ، صلاح کار اور رابطہ کار شامل کئے جارہے ہیں ، وزراء کے محکمہ جات تبدیل ہو رہے ہیں،کا بینہ میں فیصلے کئے جارہے ہیں اور پھر انہیں واپس لیا جارہا ہے، ریاست کے اہم محکموں کے معاملات میں انتہائی غیر سنجیدگی نظر آرہی ہے، حکومت کس کی ہے اور اسے کون چلا رہا ہے ،سمجھ سے بالا تر ہے ،اس حکومت میں پاکستان کا کیا حال ہوگا اور عوام پر کیا گزرے گی، اس کے آثار ابھی سے نظر آرہے ہیں۔
اس اتحادی حکومت سے عوام نے کوئی زیادہ اُمید وابستہ بھی نہیں کررکھی ہے ، یہ عوام کے آزمائے لوگ ہیں ، عوام جانتے ہیں کہ یہ ایک بار پھر اپنی ناہلیوں کا سارا بوجھ عوام پر ہی ڈالیں گے ،اس کا سلسلہ حکومت کے آتے ہی شروع ہو چکا ہے،آئی ایم ایف سے آٹھ ارب ڈالر کا طویل المیعاد اقتصادی پیکیج ابھی طے بھی نہیں ہوا

، لیکن اس کی ہدایت پر عوام کا خون نچوڑنے کا عمل شروع ہوگیا ہے،گیس پچھلے چند ماہ کے دوران چھے سو فی صد مہنگی کی جاچکی ہے، اب پھر ایک سو پینتیس فی صد مہنگی کردی گئی ہے،جبکہ بجلی کی قیمت میں ایک بار پھر اضافہ کردیا گیا ہے، حکومت ایک طرف بجلی ،گیس ، پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ کیے جارہی ہے تو دوسری جانب برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف منظوری دیئے جارہے ہیں۔
یہ اظہاربرہمی بھی بڑی پْراسرار ہوتی ہے، اگر عوام اپنے ذہن پر زرا زور دیں تو یاد آجائے گا کہ افغانستان میں امریکا کی جنگ جب جاری تھی اور وہ مزاحمت کو روکنے کے لیے پاکستان کے شمالی علاقوں پر ڈرون حملے کر رہے تھے تواس وقت پیپلز پارٹی حکومت نے امریکا کو پیغام بھیجا تھا کہ ہم اِن حملوں پر برہمی کا اظہار کرتے رہیں گے تم اپنا کام جاری رکھنا، امریکہ ڈرون حملے کرتا رہا اور پیپلز پارٹی اظہار بر ہمی کرتے رہے ، یہ پالیسی آجکل شہباز حکومت کی بھی جاری ہے کہ آئی ایم ایف کی ہر ہدایت پر برہمی کا اظہار بھی کریں گے

اور اس کی منظوری بھی دیتے رہیں گے۔
اتحادی حکومت کے عوام مخالف فیصلوں کے باعث مہنگائی میں بے انتہا اضافہ ہوتا جارہا ہے ،عالمی بینک نے اپنے حالیہ جائزے میں پاکستان میں پیدا شدہ مہنگائی کو 50سال کی بلند ترین سطح پر بتا یا ہے، جبکہ بجلی اور گیس کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں کو اس کی بڑی وجہ قرار دیا ہے، لیکن حکومت پر ان جائزوں کا کوئی اثر نہیں ہورہا ہے ،حکومت نے آئی ایم ایف کی خوشنودی میں آنکھیںاورکان بند کررکھے ہیں،آئی ایم ایف کی جانب سے بجلی ،گیس کے ریٹ بڑھانے کی بات ہو یاپٹرول پر جی ایس ٹی لگانے کی تجویز ، چھوٹے دکانداروں پر ٹیکس لگانے کی ہدایت ہو یا سرکاری ملازمین کی پنشن ختم کرنے کا معاملہ ہو، شہباز حکومت ثواب سمیٹنے میں دیر ہی نہیں کررہی ہے ، رہے غریب عوام تو وہ بیچارے حلق سے آواز بھی نہیں نکال پارہے ہیں ۔
اگر کوئی غریب آواز نکالتا ہے ، اس بے انصافی کے خلاف احتجاج کرتا ہے تو ریاست مخالف پروپیگنڈے میں دھر لیا جاتا ہے ،عوام جائیں تو جائیں کہاں ، عوام کی سنوائی کہیں نہیں ہورہی ہے ،چارسو اشرافیہ کا ہی راج ہے اور اشرافیہ کا ہی خیال کیا جارہا ہے ، اشرافیہ کو ہی ایورڈ دیئے جارہے ہیں اور اشرافیہ کو ہی کاروبار کے فروغ کی آڑ میں سہو لیات دی جارہی ہیں ، نیلے پاسپورٹ بانٹے جارہے ہیں ،جبکہ غریب صرف ان سب کی عیاشیوں کا بوجھ اُٹھانے کیلئے ہی رہ گئے ہیں ،ہر حکومت عوام مخالف فیصلے تو بڑی دلیری سے کرتی ہے ، لیکن سیاست سے لے کر اقتدار اور طاقت کے ہر ایوان تک ہماری اشرافیہ کو روکنے کا مشکل فیصلہ بھی کوئی کرے گا؟
اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہی سمت کا درست نہ ہونا ہے، ہماری سمت اس قدر غلط ہے کہ ہم حالات میں بہتر ی لانے کے بجائے بد سے بد ترین حالات کی جانب ہی بڑھے جا رہے ہیں، ہم دو قدم آگے جانے کے بجائے چار قدم پیچھے جارہے ہیں، ہم یہ حقیقت تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں کہ بنگلہ دیش اور انڈیا ہم سے کتنا آگے نکل چکے ہیں اور ہم کہاں پرانی باتوں میں ہی پھنسے ہوئے ہیں، ایک دوسرے کو گرانے اور دیوار سے ہی لگانے میں ہی لگے ہوئے ہیں،سیاسی انتقام کو احتساب کا نام دیے کر دعوئیدار ہیں کہ ملک میں استحکام لائیں گے ، سیاست دائو پر لگا کر ریاست بچائیں گے ، جبکہ ریاست کو ہی ڈبو کر اپنی سیاست بچائی جارہی ہے ،اس حقیقت کو تسلیم کرنے اوراپنی سمت بدلنے اور آزمائے سے نجات د لانے کا اصل مشکل فیصلہ کب اور کون کرے گا؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں