67

عدلیہ کی آزاد ی کا تازہ ’’جنون‘‘۔۔۔!

عدلیہ کی آزاد ی کا تازہ ’’جنون‘‘۔۔۔!

تحریر : عرفان مصطفی صحرائی

عدلیہ کی آزادی کا ’’جنون‘‘تازہ حالت میں ابھر کر بامِ عروج پر ہے۔6 ججوں کا تحریر کردہ سپریم جوڈیشل کونسل کو خط،اس کی تمام سپریم کورٹ کے ججوں تک ترسیل اور میڈیا پر بے پناہ شورکی حقیقت کیا ہے؟
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں کرپٹ ترین اداروں میں عدلیہ کا تیسرا نمبر ہے ، عدلیہ کو کرپشن سے پاک کرنے کے لئے ماضی میں کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی،بلکہ اپنی من مانیوں کی وجہ سے اپنی مفادات ڈٹ کر حاصل کئے ،لیکن عدلیہ کے وقار کو خاک میں ملا دیا گیا۔موجودہ چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسٰی پہلی بار عدلیہ کی عزت بحال نہ سہی، کرپٹ ترین اداروں کی لسٹ میں نیچے نمبروں میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں ،لیکن عدلیہ بحالی کے دشمن ان کا ساتھ دینے کی بجائے،ایسے شوشے اٹھا رہے ہیں،

جن سے ان کے ذاتی مقاصد پورے ہوں،یہی وہ لوگ ہیں،جو ایک پیج پر ہونے کے دعویدار تھے،اس وقت جسٹس شوکت صدیقی نے اپنی تقریر میں دلیرانہ انداز میں عدلیہ کی حقیقت بیان کی تھی،انہوں نے عدلیہ پر ہونے والے دبائو،چند اشخاص کی مرضی کے مطابق فیصلے کرنے کی حقیقت سب کے سامنے بیان کی تھی،اس پاداش میں انہیں نہ صرف نوکری سے برخاست کیا گیا بلکہ پانچ سال تک ان کے اپنے ادارے ،اپنے ساتھیوں نے دشمن جیسا سلوک کیا،ساتھی ججوں نے تو ان کا سوشل بائی کاٹ تک کر دیا ،لیکن وہ ڈٹے رہے۔

جسٹس فائز عیسٰی کا صدارتی ریفرینس کی حقیقت سے کو ن نا آشنا ہے،ان کے خلاف میڈیا ٹرائل کی پوری پشت پناہی اس قوت کی حکومت نے کی ،مگرجسٹس فائز عیسٰی نے جھوٹ کا مردانہ وار سامنا کیا اور سرخرو ہوئے۔ریفرنس بنانے والو ںکو شرمندگی اٹھانا پڑی۔یہ حملے عدلیہ کے شرم ناک تاریخ کا حصہ ہیں ۔
عدلیہ پر ایک بار پھر حملہ کیا گیا ہے،اسلام آباد کے 6ججوں کا جو ڈیشل کونسل کو خط لکھنا،عدلیہ پر بیرونی دبائو کا ذکر اور پھر میڈیا تک خط پہنچانا،ان کے مقاصد کی نشاندہی کرتے ہیںکہ یہ وہی جج صاحبان ہیں، جب جسٹس شوکت صدیقی یہی بات بتا رہے تھے تو یہ سب خاموش بیٹھے تھے؟ تب یہ سب مفادات سے مستفید ہو رہے تھے۔ان پر دبائو اب کا نہیں،یہ تو سابقہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے زمانے میں حالات ایسے تھے،انہوں نے انہیں کیوں نہیں بتایا؟جب انہی کے ایک ساتھی کا احتساب مانگا تو دیگر غصہ کر گئے یا ڈر گئے

،کیوں کہ ان کے اپنے دامن داغ دار ہیں۔
ملک کے اداروں کے خلاف مخصوص ذہنیت رکھنے والی خاص پارٹی نے 6ججوں کو مظلوم اور سپریم کورٹ و اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو قصور وار قرار دینے کا طرزِ عمل پر اسرار سیاسی کھیل کا ایک ہتھکنڈا ہے۔تحریک انصاف نے اپنے لیڈر کو بچانے کے لئے عدلیہ اور ملک کی عزت کو دائو پر لگایا ،مگر چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ایک بار پھر مدبّر اور دلیر جج ہونے کا ثبوت دیا، انہوںنے ججوں کے خط پر فل کورٹ کا اجلاس طلب کیا اور اعلامیہ میں دو ٹوک واضح کیا کہ عدالتی امور میں انتظامیہ کی مداخلت قبول نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے متاثرہ و خوفزدہ ججوں کی پشت پر کھڑا ہونے کا اعلان کیا۔

چیف جسٹس نے فل کورٹ کے اجلاس کے بعد وزیر اعظم پر واضح کیا کہ عدلیہ کی آزادی موجودہ آئینی نظام میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے ، تحقیقیاتی کمیشن بنانے اور عدالتوں کو خودمختار بنانے کے لئے مناسب قانون سازی کا عندیہ بھی دیا۔چیف جسٹس نے ان سب ججوں کی فرداً فرداًً شکایات سنیں اور ان کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا،ملکی عدالتی تاریخ میں ان سارے اقدامات کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔اب جب کہ تحقیقاتی کمیشن بن چکا ہے ،تمام حقائق سامنے ہو گے اوراس کا حل بھی نکل آئے گا،جو کہ ایک خوش آئیند بات ہے

،مگر پروپیگنڈیء کے تحت ،جنہوں نے یہ کام کیا تھا اور ان کا خیال تھا کہ چیف جسٹس اور وزیر اعظم تحقیقات کے معاملے میں ٹال مٹول سے کام لیں گے اورانہیں اس ایشو کا موقع ملے گا کہ ان کے لیڈر کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے،لہذا ایک بیانیہ بنا کر عدلیہ کو پریشر میں لایا جا سکے۔ان کے اس مقصد پر پانی پھر چکا ،ورنہ یہ عدلیہ پر دبائو کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں،میاں نواز شریف کو بار بار ان مسائل کا سامنا رہا،انہوں نے چیخ چیخ کر کہا ،مگر اس وقت کیوں کہ کرنے والے یہ خود تھے ،نوازشریف غدار تھا،

آج خود کو تکلیف ہے تو چیخیں نکل رہی ہیں۔اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمیشہ سے عدلیہ کو سیاسی مفادات کے لئے استعمال کیا گیا،ذوالفقار علی بھٹو شہید سے لے کر آج تک اور اس سے پہلے بھی بے شمار دل دھلادینے والے عدلیہ کے فیصلوں نے ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں ، ہر کسی نے اپنے اپنے اوقات میں عدلیہ کو استعمال کیا،مگر اب ملک اس نہج پر پہنچ چکا ہے،جہاں اپنی ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کر کے اگلا قدم اٹھانا ہے

،جہاں امن،بھائی چارے،استحکام اور ترقی کے سفر کا آغاز کر نا ہے تو ایسے معاملات کو ختم کرنا پڑے گا،جس کی اچھی ابتدا ہو چکی،امید ہے سمجھ آ جانی چاہیے کہ ہر ادارے کو آئین کی پاسداری کرتے ہوئے،اپنے حدود میں رہ کر سیدھا راستہ اپناناان کے لئے اچھا ہے اور وقت کی ضرورت بھی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں