بس ایک ہی راستہ ہے ! 75

عوام کو سکھ کاسانس کب نصیب ہو گا !

عوام کو سکھ کاسانس کب نصیب ہو گا !

اس انتخابات سے اُمید وابستہ تھی کہ کوئی تبدیلی آئے گی ،مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے ،آزمائے ہی اقتدار میں دوبارہ آگئے اور اپنے آزمائے فار مولے ہی دوبارہ آزمائے جارہے ہیں ،ایک طرف قرض پر قرض لیے جارہے ہیں تو دوسری جانب ٹیکس بڑھانے اور نئے ٹیکس لگانے کے اعلانات کیے جارہے ہیں ،لیکن اپنے اخراجات کم کررہے ہیں نہ ہی ٹیکس ناد ہندگان سے وصولی کررہے ہیں ،اس ا تحادی حکومت کیلئے ضروری ہے

کہ غریب عوام پر مختلف مدات میں ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانے کے بجائے ٹیکس ناد ہندگان اور ٹیکس چوروں کے خلاف گھیرا تنگ کرے ،تاکہ ٹیکس نیٹ اور ٹیکس ریونیوں میں اضافہ ہو سکے اور غریب عوام سکھ کا سانس لے سکیں ،لیکن ایسا کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے، کیو نکہ فیصلے تو کہیں اور ہی ہورہے ہیں۔
اگر دیکھا جائے توموجودہ اتحادی حکومت پرانی حکومت کا ہی تسلسل ہے اور اقتدار میں آتے ہی ویسی مشکلات کا شکار ہے، جیساکہ پہلے اتحادی حکومت رہی ہے ، اُس حکومت کے سر پر بے انتہا بوجھ اور ہاتھ بندھے تھے ،اس حکومت کے سر پر بھی انتہائی بوجھ اور ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، اس لیے ہی اب تک ۸۵ کھرب روپے ٹیکس وصولی سے قاصر ر ہے ہیں،صرف پیٹرولیم کے شعبے میں اسمگلنگ ٹیکس چوری ویگر عوامل کی وجہ سے ۹۹۶ ارب روپے ٹیکس کا فرق ہے، اس طرح ہی ہر شعبے میں ٹیکس ہدف اور وصولی میں فرق آرہا ہے، ریٹیل سیکٹر میں ۸۸۸ ارب، ٹرانسپورٹ میں ۲۶۵ ارب، آئی پی پیز میں ۸۹۴ ارب اور برآمدات میں بھی ۲۴۳ ارب ٹیکس کا فرق ہے،اسی طرح اسمگل شدہ اشیاء کی وجہ سے ۰۰۳ ارب، رئیل اسٹیٹ سے ۸۴۱ ارب اور سیلز ٹیکس ریونیو میں ۹۲ کھرب تک فرق جاسکتا ہے۔
یہ سب کچھ پہلی اتحادی حکومت جانتی تھی اور موجودہ اتحادی حکومت بھی بخوبی آگاہی رکھتی ہے ،اس کے باوجود جب وزیراعظم شہباز شریف کو بریف کیا گیا تو انہوں نے ٹیکس ناد ہندگان او ٹیکس چوروں کے خلاف ایکشن لینے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن وہ کچھ بھی نہیں کر پائیں گے ، کیو نکہ ٹیکس ناد ہندگان اور ٹیکس چوری میںان کے اپنے ہی ادارے اور اپنے ہی لوگ شامل ہیں ، اس لیے ایک بار پھر وہی پرانا راستہ اختیار کیا جائے گا

،نئے ٹیکس لگا کر عوام پر ہی سارا بوجھ ڈالا جائے گا ، عوام پہلے ہی پیٹرولیم ٹیکس، بجلی ٹیکس، گیس ٹیکس، ادویات ٹیکس، پانی ٹیکس، غرض ہر چیز پر ٹیکس کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، لیکن حکمرانوں کو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا ہے ، کیو نکہ وہ عوام کی حمایت سے آئے ہیں نہ ہی عوام کو جوابدہ ہیں ،وہ جن کی حمایت سے آئے ہیں ، اُن کے ہی دیے گئے ایجنڈے کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔
اتحادی حکومت ایک طرف دیئے گئے ایجنڈے کی تکمیل کی جانب گامزن ہے تو دوسری جانب حکومت کے معاشی ماہرین ظاہر کرہے ہیں کہ وہ مسائل کا حل نکالنے بیٹھے ہیں، ان کے اجلاس پہ اجلاس کا نتیجہ ٹیکس در ٹیکس ہی نکلتاہے، بڑے ٹیکس ناد ہند گان سے وصولی اور بڑے ٹیکس چوروںکی چوری گول ہی کردی جاتی ہے ، اس حکومت کوسیلز ٹیکس میں ۲۹ کھرب تک کے فرق کا سامنا ہے ،جبکہ یہ سیلز ٹیکس عوام سے وصول کیا جاچکا ہے، لیکن بڑی کمپنیاں سیلز ٹیکس کا ریکارڈ درست رکھتیں ہیں نہ ہی پورا ٹیکس دیتی ہیں، بلکہ سرکار کی ملی بھگت سے ڈنڈی مارتی ہیں،جہاں تک سمگلنگ کی بات ہے تو حکومت پیٹرولیم سمیت تمام قسم کی اسمگلنگ روکنے کی ذمے دار ہے، لیکن اسمگلر جب ایمانداری سے سب کا حصہ پہنچادیتے ہیں پھر کوئی جھگڑا رہتا ہے نہ ہی احساس ذمہ داری بیدار ہوتا ہے۔
یہ اتحادی حکومت جب سے آئی ہے ،ماسوائے نمائشی اقدامات کے کچھ بھی نہیں کررہی ہے، اس وقت حکومت کی جانب سے جو اقدامات ہورہے ہیں، وہ کچھ اس قسم کے ہیں کہ ایک نئی کمیٹی بنادی گئی ، ایک نیا کمیشن بنے گا، اس کام میں تیزی لانے کے لیے ایک مانیٹرنگ سیل بھی قائم ہوگا، ای سی سی کی تشکیل نو بھی کردی گئی ہے، وزیراعظم خود آئی ایم ایف کے قرضوں کے نظام کی مانیٹرنگ کریں گے اور بات ختم، البتہ کچھ مزید اداروں، افسران اور کمیٹیوں کے اضافے سے اخراجات میں اضافہ ضرور ہوجائے گا،لیکن معاملات میں کوئی بہتری آئے گی نہ ہی مسائل کا تدارک ہو پائے گا ، عوام پر ہی بوجھ در بوجھ بڑھتا چلا جائے گا ،یہ عوام کو بے وقوف بنانے کا عمل اب بند ہونا چاہیے، لیکن اس میں سب سے اہم مسئلہ عوام خود ہی رہے ہیں، عوام جب تک ان سے خوف زدہ ہو کرخاموش رہیںگے ،بے خوف ہو کر اپنے حق کیلئے آواز نہیں اُٹھائیں گے اورباہر نہیں نکلیں گے ، اس وقت تک اِن کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہوتا رہے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں