100

8اکتوبر کازلزلہ ۔افواج پاکستان کا کردار

8اکتوبر کازلزلہ ۔افواج پاکستان کا کردار

شوکت علی ملک

قوموں کی زندگیوں میں مشکلات اور آزمائشیں نئی بات نہیں تاہم ان مشکل حالات میں بہادری ،جرات اور جوانمردی کیساتھ مقابلہ کرنا قومی کردار کو نمایاں کرتا ہے۔ہماری قوم نے بھی ہر مشکل وقت میں اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کو ہر ازمائش سے نکالا۔مشکل کاایسا ہی ایک مرحلہ آج سے 18سال قبل 2005میں 8اکتوبر کی صبح کو پیش آیا۔ یہ المناک واقعہ 8بج کر 52منٹ پر زلزلے کی صورت میں پیش آیا۔

ریکٹر سکیل پر اس زلزلے کی شدت 7.6تھی جس نے آزاد کشمیر کے مختلف اضلاع کے علاوہ خیبر پختونخواکے کچھ  علاقوں کوبری طرح متاثر کیا ۔ اس زلزلے کے فوری اثرات 30لاکھ افراد کے بے گھر ہونے کی صورت کے سا تھ ساتھ ابتدائی تخمینے کے مطابق 60ہزار اموات تھیں جوکہ بعدازاں ایک لاکھ سے زائد ہوگئیں ۔ کے پی کے صوبے کا ایک خوبصورت شہر بالاکوٹ جوکہ دریائے کنہا رکے کنارے موجود ہے، مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔
30ہزار سے زائد لوگ موت کے منہ میں چلے گے ۔کئی سکول مکمل طور پر قبرستانوں میں بدل گے۔آزاد کشمیر میں مظفر آباد سے لے کر باغ ‘راولا کوٹ اور کئی دوسرے علاقوں میں تباہی کے ایسے دلدوز منا ظر تھے کہ ان کو دیکھنے کی تاب نہ تھی ۔ ایک اندازے کے مطابق 12ہزار طلباء وطالبات اور 15سو سے زائد اساتذہ اس زلزلے میں زندہ درگور ہو گئے ۔ 5 لاکھ سے زائد گھر تباہ ہوچکے تھے جبکہ سیکڑوں کلومیٹر کی سٹرکیں، پُل اور ذرائع مواصلات مکمل طور پر تباہ ہو چُکے تھے۔ سرکاری عمارتیں اور ہسپتال زمین بوس ہو چُکے تھے

۔ بہت سی عمارتوں میں  کام پر پہنچنے والا عملہ بھی اِن عمارتوں کے ملبے کے نیچے دب کر جاں بحق ہو چُکا تھا۔  30ہزارمربع کلو میٹر پر پھیلی ہو ئی اِس تباہی سے نمٹنا کوئی آسان کام نہ تھا ۔ دوسری طرف سے دہشت گردی کی شکل میں ایک ایسا ناسور پاکستان پر مسلط تھا جس سے ہزاروں جانو ں کی قربانیوں کے باوجود اِس کو جڑ سے اکھاڑنا مشکل ہو رہا تھا ۔ قوم و ملک کے تما م وسائل اپنوں اور اغیار کی سازشوں کے نتیجے میں اِس عفریت سے نمٹنے کی نذر ہو رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شُکر ہے

کہ افواجِ پاکستان کی شکل میں اِس ملک میں ایسا ادارہ موجود ہے جو ہر طرح کے مسائل سے نمٹنے کے لیے نعرہِ تکبیر کی صدا بلند کرتے ہوئے تمام اداروں کو ساتھ لے کر میدانِ کارزارمیں اُتر جاتا ہے۔ اگر ہم تاریخ  اٹھا کر دیکھیں تو سیلاب کی تباہ کاریاں ہوں یا مہاجرین کی بحالی، دہشت گردی کا ناسور ہو یا سرحدوں پر خلفشار افواجِ پاکستا ن ہمیشہ قوم کی اُمیدوں پر پورا اُترتے ہوئے اپنا  تن من دھن لگا کر قوم کو اِن مسائل سے نِکال کر کامیابی سے ہمکنارکر رہی ہے۔

اِن حالات میں یہ ذمہ داری بھی افواجِ پاکستان کے کندھوں پر آ پڑی  جسے اِس نے خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کیا۔  سول،  سرکاری و غیر سرکاری ادارے اس زلزلے کی تبا ہ کاریوں سے مفلوج ہو چکے تھے۔ کشمیر اور اس سے ملحقہ کے پی کے، مختلف اضلاع میں تعینات فوج کو بھی جان ومال کے شدیدنقصان کاسامناتھا۔ اس کے علاوہ ان علاقوں کا مختلف اضلاع سے رابطہ بھی کٹ چکا تھا۔ پہاڑی و دشوار گزار علاقوں میں ان حالات میں ریلیف کا کام اور بھی مشکل ہو چکا تھا۔ چنانچہ فوری طور پر 50 ہزارسپا ہ جس میں افسر اور جوان شامل تھے’ اس وسیع و عریض علاقے میں بحالی کے کاموں کے لیے بھیج دیئے گئے

۔ جی ایچ کیو کے احکامات کے نتیجے میں ہیلی کاپٹر طول و عرض میں پھیلی ہوئی اس تباہی کے اوپر مسلسل اُڑانیں بھر نے لگے اور زخمیوں کی منتقلی کا کام ایک بڑے منظم طریقے سے ہونے لگا۔ اس کے علاوہ فوج نے ان علاقوں میں امن وامان کا کنٹرول سنبھال لیاتاکہ کسی قسم کی بدامنی نہ پھیل سکے۔ فوری طور پر خیموں کے شہر آباد کر دیے گئے۔ اور 50  ہزار سے زائد لوگوں کو وہاں پر منتقل کر کے ادویات اور خوراک کی فراہمی یقینی بنا دی گئی۔اگرچہ  افواج پاکستان کے سپوت خود متاثر ین میں شامل تھے،

اس کے باوجود و ہ نہ صرف دل گرفتگی کے اس عالم میں ریسکیو اینڈ ریلیف کے کاموں میں  بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے بلکہ اپنی جیبو ں سے بھی متاثرین کی مدد کرتے دیکھے گئے۔ ان حا لات میں اقوام عالم نے بھی پاکستان کی مدد کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنا شروع کر دیئے۔ اقوام متحدہ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے امریکہ ‘ آسٹریلیا ‘لیبیا’ یواے ای اور یورپین اقوام سامنے آگئیں۔اس کے ساتھ ساتھ NGOsنے بھی اپنی کوششیں شروع کردیں۔اس کے باوجود 140 ہیلی کاپٹر اور جہاز جو ریلیف کے کاموں میں مصروف تھے ان میں 45فیصد افواج پاکستان کے تھے۔ 100 سے زائدبین الاقوامی ادارے افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کام میں مصروف ہو گئے۔ اس موقع پر پوری قوم نے محبت و ایثار کا وہ نمونہ پیش کیا

جس پر اقوام عالم بھی انگشت بدنداں رہ گئیں۔ لوگوں نے اپنے متاثرہ بھائیوں بہنوں کی امددا کے لیے سب کچھ حاضر کر دیا۔ٹرکوں کا ایک لامتناہی سلسلہ تھا جو اسلام آباد سے لے کر مظفر آباد اور دوسرے علاقوں تک امدادی سامان لے کر جانے کے لیے نظر آتا تھا۔ ان ٹرکوں میں ادویات سے لے کر گھریلو ضرورت کا ایسا سامان موجود تھا جو بقول متاثرین انہوں نے اس کو اپنی زندگی میں زلزلے سے قبل بھی نہیں دیکھاتھا۔

اگر افواج پاکستان اس سامان کو صحیح طریقے سے مننظم نہ کرتی تو یہ سامان متاثرین تک نہ پہنچ پاتا۔اس کے علاوہ بہت سی شحصیات اور ادار ے بھی صرف افواج پاکستان پر اعتما د کر رہے تھے تا کہ ان کا دیا گیا سامان محفوظ طریقے سے متاثرین تک پہنچے۔ یہ انتہائی ذمہ داری کا کام تھا کیونکہ قومی ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی  ذرائع ابلاغ کے نمائندے بھی زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں چپے چپے پر موجود تھے۔ لیکن افواج پاکستان نے کمال ذمہ داری اور ایمان داری سے یہ فریضہ ادا کرتے ہوئے

کسی کو بھی شکایت کا موقع نہ دیا ۔ اس زلزلے نے حکومت پاکستان کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ گو افواج پاکستان  قدرتی آفات کے مواقع پر ہمیشہ لیڈ کرتی ہو ئی پاکستانی قوم کومشکلات سے نکال کر سر خرو ہوئی ہیں لیکن مستقل بنیادوں پر اس کا حل بھی ہوناچاہئے۔ چنانچہ National Disaster Managment  Authority کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے صوبائی دفاتر متعلقہ صوبوں میں بنائے گئے تا کہ مستقبل میں اس طرح کی آفات کو مؤثر طور پر کنٹرول کرتے ہوئے کم سے کم جانی مالی نقصان ہو۔پاکستان آرمی نے کثیر علاقے پر پھیلے ہوئے اس زلزے میں بحا لی کے کام کو ان حصوں میںتقسیم کیا ۔  
1۔    پہلی سطح پر فوری طور پر لوگوں کوریسکیوکرنا۔
2۔     دوسری سطح پر زخمیوں کو ایمرجنسی مدد اور شدیدزخمیوں کو بڑ ے ہسپتالوں میں منتقل کرنا ۔
3۔    سٹرکو ں، عمارتوں، پلوں اور سرکاری وغیر سرکاری عمارتوں کی بحالی ۔
ان تین سطحوں پر ایک مر بوط اور مکمل پلاننگ سے کام کیاگیا۔ ہر معاملے میں شفافیت کومکمل طور ترجیح دی گئی۔ الحمدللہ! آج 16سال بعد کوئی شخص مری سے مظفرآباد اور نیلم وادی سے لیکر راولاکوٹ اور بالاکوٹ تک سفر کرتا ہے تو ا س کو اس خوفناک زلزلے کے کہیں بھی آثار نظر نہیں آتے۔ پاکستا ن آرمی کے ہر شعبے نے سول اداروں کو ساتھ لے  کر چپے چپے پر چند ہی مہینوں میں رونق بحال کر دی تھی

اور آج ان جگہوں پرپاکستا ن آرمی کے شعبوں میں یعنی انفنٹری، ایوی ایشن، میڈ یکل انجینئرز اور ایف ڈبلیو او کی کوششیں نظر آتی ہیں جس سے خوفناک زلزلے کے آثار تک نظر نہیں آتے۔ پاکستان ایئر فورس اور نیوی کی خدمات اپنی جگہ لیکن سب نے مل کر ایک قوم کے افراد ہونے کا ثبوت دیا اورمحبت وایثارکی لازوال داستانیں رقم کرتے ہوئے تاریخ پاکستا ن میں درخشاں باب کا اضافہ کر دیا۔ (حوالہ ہلال)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں