اس دور میں جینا مشکل ہے ! 91

کوئی راستہ مل ہی جائے گا !

کوئی راستہ مل ہی جائے گا !

ملک کے بدلتے سیاسی حالات میں نئی سیاسی صف بندی شروع ہوچکی ہے،اس کے نتائج آئندہ چند دنوں میں سب کے سامنے آنا شروع ہو جائیں گے،اس حوالے سے پی ٹی آئی قیادت کی ہی اے ٹی ایم مشین سرگرم عمل دکھائی دیتی ہیں ، انہوں نے سیاسی وفاداریاں بڑی تیزی سے تبدیل کروائی ہیں ،ایک نئی سیاسی پارٹی کا اعلان ایک سو تعداد پوری ہونے پر کیا جانا تھا ،مگر یہ اعلان دو سو تعداد ہونے پر کیا گیا،

تحریک استحکام پا کستان کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت وجود میں آگئی ہے ،جبکہ تحریک انصاف کا علم اب عارضی طور پر شاہ محمود قریشی کے ہاتھ میں ہے، یہ علم کب تک ان کے ہاتھ میں رہے گا ،اس بارے کچھ کہنا مشکل ہے ، میڈیا بھی کچھ بتا پارہا ہے نہ ہی دکھا پارہا ہے ،کیو نکہ جس میڈیاسے حقائق بتانے کا کہا جاتا تھا،اب کہا جارہا ہے کہ دشمن کا دوست بھی دشمن ہی سمجھا جائے گا،اس صورت حال میں آزادی صحافت کے دعویدار کہاں کھڑے ہیں، یہ خود ہی بتائیں تو بہتر ہے، ہمیں فی الحال کہیں نظر نہیں آرہے، یہ نظر آئیں گے توہی بتا پائیں گے کہ یہ لوگ کہاں کھڑے ہیں؟
اس ملک میںہر دور اقتدار میں سب سے پہلے آزادیٔ صحافت پر ہی قدغن لگائی جاتی رہی ہے ، لیکن اس دورحکومت میں سارے ہی ریکارڈ توڑے جارہے ہیں ، ایک طرف میڈیا کنٹرول ہے تو دوسری جانب سیاسی توڑ پھوڑ اپنے عروج پر ہے ،تحریک انصاف کی توڑ پھوڑ بھی نئی نہیں ہے،یہ سب کچھ پہلی بار کسی سیاسی جماعت کے ساتھ نہیں ہو رہا ہے، بلکہ اس کی ایک طویل تاریخ ہے اوریہ تاریخ اتنی ہی پرانی ہے،

جتنا کہ پاکستان ہے، اس کی واضح مثال ری پبلکن پارٹی کا قیام تھا، جوکہ ملک میں ون یونٹ کے قیام کی راہ ہموار کرنے کے لیے راتوں رات تخلیق عمل سے گزری اور اگلے روز ایک ایسی حکومت قائم ہوتے دیکھی گئی کہ جس نے ون یونٹ کے قیام کو ممکن بنایاتھا،اس کے بعد سے ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ روکنے میں ہی نہیں آرہا ہے

،ایک ہی سکرپٹ بار بار دھریا جارہا ہے، تحریک استحکام پاکستان پارٹی کا قیام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، یہ تحریک استحکام پا کستان پارٹی اب سیاسی وفاداریاں بدلنے والوں کے ساتھ پا کستان میں استحکام لائے گی۔آج ملک کی بدلتی سیاسی صورتحال کو پرانی نسل ری پلے میں دیکھ رہی ہے، لیکن نئی نسل نہ صرف انتہائی الجھن کا شکار ہے،بلکہ اسے قبول کرنے کیلئے بھی تیار نہیں ہے ،

اس لیے اس کے خلاف مذاحمت دکھائی دیتی ہے اور اس مذاحمت کو بزور طاقت دبایا جارہا ہے، عوام میں اپنی مرضی مسلط کرنے کیلئے خوف و ہراس پھلایا جارہا ہے ،تاہم صاحب اختیار جان لیں کہ وقت کا جبر کچھ دیر کیلئے زبان خاموش توکرا سکتا ہے، مذاحمت بھی دبا سکتا ہے ،لیکن تاریخ کی آنکھ کبھی بند کی جاسکتی ہے نہ ہی کبھی قلم روکا جاسکتا ہے ، تاریخ کا سچ ایک دن سامنے آکر ہی رہتا ہے ،اس سچ کے سامنے آنے میں کچھ دیر ضرورہو جاتی ہے،لیکن یہ سچ جب بھی سامنے آتا ہے تو بہت کم لوگوں کو ہی ہضم ہوپاتاہے،

اس وقت جو بھی اقتدار کے لالچ میں جھولیاں پھیلا رہے ہیں،عوام کو ان کا ماضی یاد رکھنا چاہیے کہ سیاسی جھولیوں میں ہمیشہ چھید ہی ہوتے رہے یا وقت گزرنے پرکر دیے جاتے ہیں ،یہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک سچ ہے، لیکن اس تاریخ کے سچ سے اہل سیاست نے نہ سیکھنے کی قسم کھارکھی ہے ۔
اہل سیاست اپنے ماضی سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں نہ ہی پرا نی غلطیاں دہرانے کی رویت چھو ڑ رہے ہیں ،ایک بار پھر وہی پرانی انتقامی سیاست کی رویت دہرائی جارہی ہے ،اس انتقامی سیاست کی بدولت ہی جمہوریت بار ہا ڈی ریل ہوتی رہی ہے ، اس بار بھی جمہوریت کے غلاف میں آمریت اپنے پنجے گاڑرہی ہے

،لیکن اہل سیاست ایک دوسرے کو گرانے اور دیوار سے لگانے میں اتنے محوہیں کہ سامنے نظر آنے والے خطرات کو بھی نظر انداز کررہے ہیں ،نو مئی کے واقعات کے بعد حالات نے جس جانب کروٹ بد لی ہے،اس سے کئی سوالات سر اٹھا نے لگے ہیں،اگران سوالات کے جوابات پر غور کر نے کے بجائے اس کی آڑ میںحکمران اتحاد اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کریں گے تو جمہوریت کو نقصان ہی پہنچائیں گے۔
اس ملک کی جمہوریت پہلے بھی اہل سیاست کی محاذ آرائی میں دائوپر لگتی رہی ہے اور اس بار بھی جانتے بوجھتے ہوس اقتدار میں دائو پر لگائی جارہی ہے ،یہ سب کچھ کہیں دیوار پر لکھا اور کہیں پس دیوار دکھائی دیے رہا ہے،لیکن ان الجھتے معاملات کوکہیں سے بھی سلجھانے کی کوشش نہیں کی جا رہی ہے،یہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کی ہی ذمہ داری ہے کہ معاملات کو اتنے آگے تک نہ لے کر جائیں کہ جہاں سے نکلے کے سارے راستے ہی بند ہو جائیں،یہ کسی ایک کیلئے نہیں ،دونوں کیلئے ہی نقسان دہ ہے

،مگر اس پہلو کو نہ جانے کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے؟ کیا اسے نظر انداز کر کے ایک ایسی غفلت کا ارتکاب نہیں کیا جا رہا ہے ،جو کہ ہمیں مزید ایک بڑے سیاسی بحران سے دوچار کردیے گا،اہل سیاست کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے دوسروں کا آلہ کار بنے کے بجائے آپس میں مل بیٹھ کر سیاسی معاملات سیاسی انداز میں حل کرنے کی کوشش کر نی چاہئے ،اگر سیاسی قیادت اپنی ذاتیات کے خول سے باہر نکلتے ہوئے قومی مفاد میں مل بیٹھے تو مفاہمت کا کوئی نہ کوئی راستہ نکل ہی آئے گا ، بصورت دیگر بدلتے حالات میں سب ہی خالی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں