پاکستان جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں ہی وجود میں آیا ہے،لیکن ایک طویل عر صہ گزرنے کے بعد بھی جمہوری کلچر پروان 153

بلیم گیم کی سیاست میں نااہل قیادت !

بلیم گیم کی سیاست میں نااہل قیادت !

اتحادی قیادت جب سے اقتدار میں آئے ہیں،انتقامی سیاست کی راہ پر گامزن ہیں ،اتحادی قیادت بہت جلدی میں لگتے ہیں ، یہ ایک طرف اپنے خلاف سارے مقدمات ختم کروائے جارہے ہیں تو دوسری جانب اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات بنائے جارہے ہیں ، اتحادیوں کے نشانے پر سب سے زیادہ تحریک انصاف قیادت ہے اور ہر جائز وناجائز طریقے سے پی ٹی آئی قیادت کو سیاست سے آوٹ کر نے میں کو شاں نظر آر ہے ہیں

، اس حوالے سے الیکشن کمیشن کاتو شہ خانہ کیس میں فیصلہ اتحادی حکومت کیلئے حوصلہ افزارہا ہے ،اس فیصلے کی رو سے سابق وزیر اعظم عمران خان کو آرٹیکل 63 ون پی کے تحت نااہل قرار دیے دیا گیا ہے ،

اس ٖفیصلے پر جہاں اتحادی خوشیاں منارہے ہیں ،وہیں عوام کی اکثریت سراپہ احتجاج ہے ،اس فیصلے کے ملکی سیاست پر دورس اثرات دیکھنا مشکل نہیں ہیں ،یہ اند یشہ بعید از قیاس نہیں کہ سیاسی جذبات جوکہ پہلے ہی انتہائی سطح پر ہیں ،اس کی شدت میں مزید اضافہ ہو تا دکھائی دیے رہا ہے۔
اتحادی قیادت عوام کے مسائل کے تدارک کے دعوئے کے ساتھ اقتدار میںآئے تھے،مگر ان کی تر جیحات میں عوامی مسائل کے تداک کے بجائے خود کو بچانا اور مخالفین کو گرانا ہی دکھائی دیے رہا ہے ،فارن فندنگ کیس سے لے کر تو شہ خانہ کیس سمیت دیگر مقدمات مائنس ون فارمولے کو کامیاب بنانے کیلئے پرسو کیے جارہے ہیں

،تو شہ خانہ ریفرنس حکمران اتحاد پی ڈی ایم کے پانچ ارکان پارلیمان کی درخوست پر سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا ،اس ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا کہ عمران خان نے بطور وزیراعظم توشہ خانہ سے حاصل ہونیوالے تحائف فروخت کرکے جو آمدنی حاصل کی ہے

، اسے اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا ہے،جبکہ عمران خان نے الیکشن کمیشن کے روبر اپنے و تحریری جواب میںواضح کیاکہ انہوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا ہے ،انہوں نے اپنے دور میں بطور وزیر اعظم چار تحائف دو کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد توشہ خانہ سے حاصل کئے اور تقریباً پانچ کروڑ 80 لاکھ روپے میں فروخت کئے ہیں۔
تو شہ خانہ سے صرف پی ٹی آئی قیادت نے ہی تحائف نہیں خریدے ہیں ، بلکہ اس سے قبل دیگر سیاسی قیادت نہ صرف تحائف لیتے رہے ،بلکہ ان کے خلاف ریفرنس بھی دائر ہو ئے ہیں ،لیکن تو شہ خانہ کا فیصلہ پی ٹی آئی قیادت کے خلاف ہی آیا ہے،تاہم اس فیصلے کے بعد توشہ خانہ سے قیمتی کاروں سے متعلق خلاف ضابطہ خریداری کا ریفرنس زیادہ اہم ہو گیا ہے کہ جس میں د وبڑی سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادت کو ملی بھگت، گٹھ جوڑ اور پارٹنرشپ کے الزامات عائد کرتے ہوئے ایک ریفرنس میں ملزم نامزد کیا گیا ہے

،نیب ریفرنس کے مطابق سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے قوانین میں نرمی پیدا کر کے سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو توشہ خانہ سے گاڑیاں خریدنے کی اجازت دی تھی ،اسلام آباد کی احتساب عدالت نے توشہ خانہ سے تحفے میں ملنے والی گاڑیوں کی غیر قانونی طریقے سے خریداری کے مقدمے میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں،اس کے باوجود ان سب کوڈیل اور ڈھیل دی جارہی ہے ،جبکہ پی ٹی آئی قیادت کو سیاست سے بے دخل کردیا گیا ہے۔
یہ الیکشن کمشن کا فیصلہ ایسے وقت آیا ہے کہ جب عمران خان پی ڈی ایم حکومت کے خلاف لانگ مارچ کی تیاری کر رہے ہیں،یقینی طور پر پہلے سے چارج شدہ سیاسی ماحول فیصلے کے بعد مزیدشدت پکڑ سکتا ہے،تحریک انصاف کے پاس الیکشن کمشن کے فیصلے کے بعد سیاسی اور قانونی انداز میں ردعمل دینے کی گنجائش موجود ہے،جبکہ الیکشن کمشن نے جس بنیاد پر عمران خان کو ڈی سیٹ کیا ہے

،اس کے لیے عدالت میں دفاع کرنا مشکل نظر آرہا ہے، پی ٹی آئی قیادت نے تحائف چرائے نہیں، خریدے ہیں اور اس کی رسیدیں بھی موجود ہیں، اس فیصلے کے عدالت میں ریورس ہونے کے چانس زیادہ دکھائی دیے رہے ہیں ، اس لئے اتحادی قیادت اپنے سیاسی مخالفین کو سزائیں ملنے پر دادو تحسین کے ڈونگرے برساتے وقت سوچ لے کہ کل انکے اپنے گلے میں بھی پھندا پڑ سکتا ہے،آج تحریک انصاف قیادت کی باری ہے تو کل کلاں مسلم لیگ( ن) اور پیپلز پارٹی قیادت کی بھی باری آسکتی ہے۔
اتحادی قیادت آج جو کچھ بورہی ہے، کل کلاں اسے وہی کچھ کا ٹنا پڑے گا ،اس لیے انتقامی سیاست کی راہ پر چلتے ہوئے اتنا آگے نہیں بڑھناچاہئے کہ واپسی کا راستہ ہی بند ہو جائے ،اگر چہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز دوبارہ دوٹوک الفاظ میں باور کرایا ہے کہ فوج سیاست میں کوئی کردار ادا نہیں کریگی، تاہم کسی اندرونی خلفشار پر قابو پانے کیلئے فوج کو اپنا کردار ادا کرنا ہی پڑے گا ،

اس حوالے سے ہمارے ماضی کے تجربات کافی تلخ رہے ہیں، اس لئے ہماری سیاسی قیادتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ باہمی محاذ آرائی میںاتنی تلخیاں نہ بڑھائیںکہ سب کے ہاتھ سے سب کچھ ہی نکل جائے اور سب اپنے ہاتھ ہی ملتے رہ جائیں ،اگر بلیم گیم کی سیاست میں پارٹی لیڈران یکے بعد دیگرے ایسے ہی نااہل ہو کر قومی سیاست سے بے دخل ہوتے رہے تو پھر باقی کون بچے گا کہ جو جمہوریت کی عملداری و استحکام کیلئے کوئی موثر کردار ادا کر سکے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں