ملک کے اہم ادارے خسارے کا شکار ہوں، ملک قرضوں میں جکڑا ہو ،عوام بھوک اور افلاس کے عذاب سے گزررہے ہو ں 136

آٹا غریب کی پہنچ سے دور،روٹی کا حصول مشکل

آٹا غریب کی پہنچ سے دور،روٹی کا حصول مشکل

پاکستان میں گندم اور چاول بنیادی غذائی ضروریات ہیں،لیکن یہ ضروریات زندگی عوام کی دست رست سے باہر ہوتی جارہی ہیں،ملک بھر میں چاول تو پہلے ہی مہنگے تھے، اب آٹا بھی انتہائی مہنگا کردیا گیاہے،عوام پہلے ہی مہنگائی کے چکی میں پس رہی ہے،اب آٹا بھی عوام کی پہنچ سے دور کیا جا رہا ہے، مزدور طبقہ آٹا مہنگا ہونے کی وجہ سے شدید مشکلات میں مبتلا ہے، دیہاڑی دار مزدور فاقہ کشی پر مجبورنظر آتے ہیں،

یوٹیلیٹی اسٹورز پر بھی آٹا غائب کر دیا گیا ہے،مہنگائی کے طوفان سے غریب مزید غریب تر ہو رہاہے، جبکہحکومت مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنے اورر آٹے کا مصنوعی بحران پیدا کر کے ناجائز فائدہ اٹھانے والے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کاروائی کرنے میں ناکام نظر آتی ہے ،روٹی کپڑا مکان کے دعویدار حکمرانوں کے دور میں آئے روز بڑھتی مہنگائی نے عوام کا جینا انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اتحادی قیادت بڑھتی مہنگائی کے خاتمے کے وعدے اور دعوئے کے ساتھاقتدار میں آئے تھے ،مگر چار ماہ سے زائد عرصے میں مہنگائی کا خاتمہ تو درکنار ،اس میں کسی حدتک کمی بھی لائی نہیں جاسکی ہے ،اس وقت پر چیز کی قیمتیں عوام کی دست رست سے باہر ہوتی جارہی ہے،

ایک طرف اشیاء ضروریہ کی قیمتیں تین گنا بڑھ چکی ہیں تو دوسرجانب انتظامیہ کی ملی بھگت سے مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کی جارہی ہے، اس صورت حال نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے اور وہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ اپنے بیوی بچوں کی دیگرضروریات تو درکنار ، غذائی ضروریات کیسے پوری کرے گا۔
یہ حقیقت ہے کہ موجودہ حکمران غریب سے روٹی کا نوالہ بھی چھین رہے ہیں، نا اہل قیادت اورکرپٹ انتظامیہ کی وجہ سے عوام دہرے عذاب میں مبتلا ہیں،ایک طرف حکومت کے عوام مخالف فیصلوں کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے تو دوسری جانب انتظامیہ کی ملی بھگت سے مصنوعی مہنگائی مافیا کی من مانیاں اپنے عروج پر ہیں ،اس وقت پشاور میں 15کلو آٹے کا تھیلا 2500 روپے راولپنڈی میں 1750روپے، کراچی میں 2200 روپے اور لاہور میں 1600روپے میں فروخت ہورہا ہے،

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گندم کی قیمت نے 75 سالہ تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں،جبکہ حکومت اور انتظامیہ بے بسی کی تصویر بنے سب کچھ سامنے ہوتا دیکھ ر ہے ہیں۔
در اصل اتحادی حکومت کی تر جیحات میں عوام کو رلیف دینا نہیں ہے ،اتحادی قیادت عوام کو مہنگائی سے بچانے اور عوام کو رلیف دینے کی بجائے اپنے خلاف مقدمات ختم کروانے میں لگے ہو ئے ہیں،جبکہ انتظامیہ مصنوعی مافیا کے ہاتھوں یرغمال ہے،اس وقت راولپنڈی میں گندم کے سرکاری نرخ 3000 روپے فی من مقرر ہیں، جبکہ اوپن مارکیٹ میں گندم 3600 روپے سے بڑھ کر 3700 روپے میں فروخت ہورہی ہے

، پنجاب میں گندم کی امدادی قیمت 3000 روپے فی من اور سندھ میں 4000 روپے فی من مقرر ہونے اور سیلاب زدہ علاقوں میں آٹے کی طلب میں غیرمعمولی اضافہ سے بھی آٹے کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں، بلوچستان کے شمالی اضلاع میں دو ہفتوں میں 100 کلو فی بوری کی قیمت 11ہزار سے بڑھ کر 13ہزار روپے ہوگئی ہے،

بلوچستان میں گندم نہ ہونے کے باعث فلور ملز بند ہونے کی بھی اطلاعات ہیں، یہ شکایات بھی سامنے آرہی ہیں کہ فلور ملزنے آٹے کے اپنے ہی نرخ مقرر کررکھے ہیں، جوکہ روزانہ کی بنیاد پر بڑھتے ہی جا رہے ہیں،یہ صورت حال قیمتوں پر کنٹرول کرنے والے نظام کو فعال کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی اور سیلاب کے باعث گندم کی کھپت میں اضافہ ایک فطری امر ہے،تاہم پاکستان میں سب سے زیادہ کاشت کی جانے والی فصل گندم ہے، لیکن افسوسناک بات ہے کہ دنیا کو گندم برآمد کرنے والا ملک آج اسے درآمد کرنے پر مجبور نظر آنے لگاہے

،اس میں حکومت کی غلط پا لیسیاں اور انتظامیہ کا غیر ذمہ دارانہ رویہ بھی کار فرمارہا ہے ،اس وقت سیلاب کی تباہ کاریوں میںوفاقی حکومت کے ساتھ صوبائی حکومتوں کا بھی کڑا امتحان ہے کہ اس مسئلہ کا حل کس قدر احسن انداز میں نکالنے کی کوشش کرتے ہیں،یہ وفاق کے ساتھ صوبائی حکومت کو بھی سمجھنا ہوگاکہ عوام زبانی کلامی وعدوئوں اور دعوئوں سے تنگ آچکے ہیں ،اس لیے آٹا ،روٹی عوام کی پہنچ سے باہر نہیں جانی چاہیے،

کیونکہ مسائل زدہ عوام ہر بحران اور ہرمصیبت صبر سے برداشت کر لیں گے ،لیکن آٹے ،روٹی کے ہاتھوں اپنے بچوں کو مرنابرداشت نہیں سکیں گے، حکومت کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ فوری طور پر آٹے کے بحران پر قابو پانے کی ہر ممکن کوشش کرے ،بصورت دیگرآٹے ،روٹی کی غریب کی پہنچ سے دوری ہی حکومت کے زوال کا باعث بن جائے گی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں