148

بھارت کا عظیم ہاکی کھلاڑی دھیان چند

بھارت کا عظیم ہاکی کھلاڑی دھیان چند

۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707

اپنی جان تک کی پرواہ نہ کرتے ہوئے،اپنے بروقت فیصلے والے کلمات سے، بھارت کا نام تاریخ میں سنہرے الفاظ رقم طراز کرنے والے لمحات بھلائے نہیں جاتےبھارت 15 اگست 1947 کو جب سے آزاد ہوا ہے بھارت کے ہزاروں گاؤں شہروں کے ساتھ، تقریبا دو سو عالم کے ممالک میں، موجود، آزاد بھارت کے سفارت خانوں میں بھارتیہ ترنگا لہرایا جاتا ہی ہے لیکن کیا کوئی جانتا ہے کہ 1936 میں جرمنی کے شہر برلن میں منعقدہ اولمپک میں، غلام بھارت کی ہاکی ٹیم نے عالمی تمغہ جب جیتا تھا تو اس وقت کے آل انڈیا کانگریس کے بھارتیہ ترنگے کو، اس وقت کی عالم کی سب سے اونچائی پر لہرانے کا فخر حاصل ہوا تھا
اور یہ اس وقت ہوا تھا جب اس وقت کے عالم کے سب سے طاقت ور ترین نازی رہنما، ایڈولف ہٹلر اپنے جرمنی ملکی 40 ہزار کھیل پریمیوں کے ساتھ ایک لاکھ 84،203 کے مجمع ، جرمنی کی ٹیم کو اولمپک میچ جیتتے دیکھنے خود اسٹیڈیم آیا ہوا تھا بھارت اور جرمنی ٹیم آمنے سامنے تھی بھارتیہ دھیان چند نے جرمنی کے 1 گول کے مقابلے،مختلف بھارتیہ کھلاڑیوں کے 38 گول کے درمیان صرف اپنے 8 گول سے نہ صرف بھارت کو کامیابی دلوائی تھی بلکہ دھیان چند کے عظیم کھیل کے پیش نظر،

اس وقت کے عظیم نازی لیڈر ایڈولف ہٹلر نے، جب انعامی ٹرافی دیتے ہوئے غلام بھارت کےآزاد،عظیم ہاکی کھلاڑی،دھیان چند سے جو دو بدو بات چیت کی تھی اور دھیان چند کے دلیرانہ جواب سے بھارت واسیوں کو جو تفخر دلوایا تھا،وہ شاید عالم کے کسی بھی کھلاڑی نے،اپنے ملک کو، وہ بھی، اس وقت کے غلام ملک کو، اتنی عزت و توقیریت دلوائی ہوگی!

جب اس وقت کے عالم کے طاقتور ترین فوجی ڈکٹیٹر ہٹلر نے،انعام ٹرافی دیتے وقت دھیان چند کو مخاطب کرتے ہوئے اس کی کھیل کی تعریف کرتے ہوئے،اسے جرمن فوج میں شامل ہونے کی درخواسٹ کردی تو اسٹیڈیم میں موجود 40 ہزار جرمن عوام کے بشمول 1 لاکھ 84،203 کے ساتھ، عالم بھر کے ملکوں کے سفیروں کے دل دھڑکنا کچھ لمحوں کے لئے، مانو جیسے بند ہوگئے تھے، یہ سوچ کر اگر دھیان چند نے غلطی سے ہٹلر کی پیش کش ٹھکرادی تو کہیں ہٹلر، اسے اپنی ہتک یا بے عزتی تصور کرتے ہوئے،

وہیں عالم کے اتنے بڑے مجمع میں ہی، دھیان چند کو گولی مار ہلاک نہ کردے۔ لیکن سلام و صدقہ جاویں دھیان چند کی ہمت پر، اس نے نتیجہ کی پروا نہ کرتے ہوئے، اپنی آنکھیں بند کرتے ہوئے، جب یہ کہا “بھارت بکنے کے لئے نہیں ہے سر” اور اس وقت اسٹیڈیم میں موجود ایک لاکھ 84 ہزار 103 لوگوں کے مجمع سے نے دیکھا، انعامی تمغہ دینے کے بعد، مہمان خصوصی، کھلاڑیوں کے ہاتھ عموما جو ملاکر مصافحہ کرتے ہوئے،

انکی عزت افزائی کرتے ہیں، دھیان چند کے انکاری جواب پر، اس وقت کی دنیا کا عظیم نازی جرنیل ہٹلر، دھیان چند سے مصافحہ کرنے کے بجائے، بھارتیہ عظم ہاکی کھلاڑی دھیان چند کو سیلیوٹ مارتے ہوئے، جب یہ کہتا ہے “مجھے فخر ہے تم پر اور تمہارے بھارت پریم پر دھیان چند”، اور پھر ہزاروں کے مجمع کی تالیوں کی گراہٹ میں عالم کی کھیل تاریخ کا سب سے سنہرا موقع تاریخ کا ان منٹ نشان دھیان چند بنا چکے ہوتے ہیں کیا بھارت کے اس عظیم ہاکی کھلاڑی کو اس کے عظیم کھیل کے لئے ہی نہیں،

بلکہ اس وقت کے عالم کے سب بڑے فوجی ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر کے سامنے بھارت کا وقار بلند رکھنے والے کلمات کے لئے کیا انہیں اتنی عزت و اکرام اب بھی دیا جاتا ہے جس کا وہ مستحق ہے؟ اور چونکہ اس وقت اولمپک 4 اگست سے 15 اگست تک کھیلا جاتا تھا اور انعامی تقریب 15 اگست 1936 کو منعقد ہوئی تھی اور بھارت بھی 15 اگست کے دن ہی آزاد ہوا تھا، اس لئےبھارت واسی حکمرانوں کو چاہئیے تھا

اس وقت کے عظیم لھلاڑی دھیان چند کے بچوں پوتوں میں سے کسی نہ کسی ایک کو، ہر آزادی ھند کے دن ریڈ فورڈ دہلی بلواتے ہوئےاور دھیان چند کا تذکرہ کرتے ہوئے، اس عظیم ہاکی کھلاڑی کو خراج تحسین پیش کیا جاتے رہنا چاہئیے تھا۔ وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں