ملک کے اہم ادارے خسارے کا شکار ہوں، ملک قرضوں میں جکڑا ہو ،عوام بھوک اور افلاس کے عذاب سے گزررہے ہو ں 161

افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال !

افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال !

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے افغان طالبان کی سہولت کاری کے ساتھ ہونے والے مذاکرات سے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خاتمے کی اُمید پیدا ہوئی تھی، مگر سرحد پار سے مختصر خاموشی کے بعد ایک بار پھرحملے شروع ہو گئے ہیں،سر حد پار سے یک بعد دیگرے دہشت گردانہ کاروئیوں میں متعددجوانوں کی شہادتیں ہورہی ہیں،اگر چہ جوابی کارروائی میں دشمن کا بھی بھاری جانی نقصان ہورہا ہے

،تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ افغان حکومت اپنے وعدے کے مطابق سر حد پار سے ہونے والی دہشت گردانہ کاروائیاں روکنے کا بندوبست کرے ،پاکستان آج بھی تباہ حال افغانستان حکومت کی ہر طرح سے حمایت کر رہا ہے ،جبکہ کابل حکومت کا رویہ مخاصمانہ رہا ہے،طالبان قیادت کو نہ صرف اپنا طرز عمل بدلناہو گا،بلکہ اپنی سرزمین سے پاکستان میں مداخلت کو بھی سختی سے روکنا پڑے گا۔
یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ جس افغانستان کی خاطرپا کستان نے امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے اسی ہزار سے زائد شہریوں بشمول سکیورٹی افسران و اہلکاروں کی جانوں کی قربانیاں دیں اور قومی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان بھی پہنچایا،اس کی جانب سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی بجائے دہشت گردی کی جارہی ہے،افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد توقع کی جارہی تھی

کہ اشرف غنی دور کی کشیدگی اور کارروائیوں کا خاتمہ ہو سکے گا،لیکن پا کستان کی ساری توقعات دھری کی دھری رہ گئیں کہ جب افغانستان پر امریکہ کے ایک ڈرون حملے کے بعد طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اسلام آباد کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر دوبارہ ایسا ہوا تو اس کے برے نتائج ہوں گے۔
پا کستان آج بھی افغانستان میں امن و خوشحالی کیلئے سر گرم عمل ہے ،جبکہ طالبان اپنا وعدہ پورا کرنے کی بجائے اُلٹا پا کستان کو ہی دھمکیاں دینے لگے ہیں ، افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے،اگر چہ ان حملوں کی ذمہ داری پاکستانی طالبان نے قبول کی ہے یا پھر اسلامک اسٹیٹ گروپ سے وابستہ تنظیم نے ذمہ داری لی ہے کہ جن کے افغانستان میں مضبوط گڑھ ہیں، طالبان حکومت ان کے خلاف کارروائی کرنے کا وعدہ کرتی رہی ہے ،مگر اب تک ان کے خلاف کوئی سخت کاروائی ہوتی دکھائی نہیں دی ہے

،طالبان حکومت کے دوغلانہ روئیے کا نتیجہ ہے کہ پا کستان مخالف قوتوں کے حوصلے بڑھتے جارہے ہیں اور سر حد پار سے دہشت دردانہ کارئیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔پاکستان میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے تھنک ٹینک، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز نے کہا ہے کہ اس سال کے پہلے تین مہینوں میں پاکستان پر عسکریت پسندوں کی طرف سے 52 حملے ہوئے، جبکہ پچھلے سال کی تعداد 35 تھی،اس سال اب تک ایسے حملوں میں 155 افراد ہلاک ہو چکے ہیں،

جبکہ گزشتہ سال تعداد 68 تھی ،پاکستان دفتر خارجہ بار ہاباور کرواچکے ہیں کہ دہشت گرد پاکستان کے اندر کارروائیاںکرنے کے لیے افغان سرزمین کا استعمال کر رہے ہیں،لیکن طالبان حکام کا باغیوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہنا ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد سے سرحد پار سے ہونے والے حملوں کو ہر ممکن روکنے کی کوشش کررہے ہیں،جبکہ طالبان حکومت کی جانب سے پا کستان مخالف گروپوں کے خلاف کوئی عملی کاروائی ہوتی دکھائی نہیں دیے رہی ہے ۔
درحقیقت افغان طالبان نے اپنے آپ کو ہمیشہ عوام کے سامنے ایک ایسے گروہ کے طور پر پیش کیا ہے کہ جو خود مختار ہے ،اس لیے پاکستان کے کہنے پر ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے رہے، کیونکہ اس سے یہ تاثر جائے گا کہ وہ
پاکستان کے اشاروں پر چل رہے ہیں، جبکہ افغان طالبان ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ خود مختار ہیں اور کسی بھی غیر ملکی طاقت کے اشارے پر نہیں چل رہے، اگر وہ پاکستانی طالبان کے خلاف ایکشن لیں گے تو ایک طرف خود مختاری کا تاثر زائل ہو گا تو دوسری جانب پا کستانی طالبان بھی نا راض ہو جائیں گے ،افغان طالبان پا کستان کیلئے پا کستانی طالبان کی ناراضگی برداشت کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آتے ہیں۔
یہ صورت حال پا کستان کیلئے ناقابل قبول ہوتی جارہی ہے ، افغانستان اور کابل انتظامیہ کی جانب سے اب تک پا کستان کے خلاف جو ہو چکا سو ہو چکا،اب مزید نرمی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اس لیے گزشتہ روز کے واقعہ پر کابل انتظامیہ سے محض رسمی احتجاج کے بجائے معاملہ ملک اور خطے کی سلامتی کے تناظر میں اقوام متحدہ میں بھی اٹھایا جائے اور پاکستان کی سلامتی کیخلاف اٹھنے والے بھارتی اقدامات کے

ساتھ افغانستان کے ہاتھ بھی سختی سے روکنے کی پالیسی طے کی جائے، بصورت دیگر آئندہ کابل کی جانب سے بھی ہماری سلامتی و خودمختاری کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، پاکستان سیکورٹی فورسز کو ایک طرف سرحد پار در اندازی روکنے کے مزید سخت اقدامات کرنا ہوں گے تو دوسری جانب دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کاسلسلہ بھی اس وقت تک مسلسل جاری رکھنا ہو گا کہ جب تک سرزمین وطن سے آخری دہشت گرد کا مکمل صفایا نہیں ہو جاتاہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں