ملک کے اہم ادارے خسارے کا شکار ہوں، ملک قرضوں میں جکڑا ہو ،عوام بھوک اور افلاس کے عذاب سے گزررہے ہو ں 112

ضمنی انتخابات کے التوا پر تحفظات !

ضمنی انتخابات کے التوا پر تحفظات !

ملک میں ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں تو دوسری جانب ضمنی انتخاب کی سیاست اپنے عروج پر ہے ،اس دوران میں ہی الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات ملتوی کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث انتخابات کا انعقاد مقررہ تاریخوں پر ممکن نہیں، حالات کی بہتری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دستیابی پر نئی پولنگ کی تاریخوں کا اعلان کیا جائے گا،

اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے تحریک انصاف قیادت کا کہناہے کہ مخالفین الیکشن سے بھاگ گئے ہیں، اگر الیکشن بروقت ہو جاتے تو ان کی ساری وکٹیں گر جانی تھیں،جبکہ پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول زرداری کا کہنا ہے کہ میرے امیدوار ضمنی الیکشن اچانک ملتوی کیے جانے پر مایوس ہیں، آخری لمحات میں پی ٹی آئی کو الیکشن سے بھاگنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی،سیاسی قیادت کے ایسے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت کو عوام کے مسائل اور پریشانیوں سے کوئی سروکار نہیں ، وہ سیاست کو صرف ایک کھیل سمجھتے ہوئے ہر ایشو پر کھیلنا ہی ضروری سمجھتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ ملک کا بڑا حصہ سیلاب کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا ہے اور کروڑوں لوگ مصائب کا شکار ہیں، سیاسی قیادت کو ضمنی انتخابات کی بجائے متاثرین کی بحالی پر ہی توجہ دینی چاہیے،لیکن اس وقت الیکشن کمیشن کافیصلہ اس لحاظ سے بڑا ہی عجیب معلوم ہوتا ہے کہ پانچ اگست کو الیکشن کمیشن نے انتخابی انتظامات مکمل ہونے کی نوید سناکر انتخابی شیڈول کا اعلان کیا تھا،

پانچ اگست کے بعد سے ملک کے کسی علاقے میں نئی ہنگامی صورتحال سامنے نہیں آئی ہے،اس کے باوجود ضنمی انتخابات کا سیلاب کی آڑ میں ملتوی کرنا، الیکشن کمیشن سے زیادہ حکومتی سیاست کی کا ر گزاری نظر آتی ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس وقت سیلاب کی تباہ کاریوں میں سیاسی قیادت کی ساری سر گرمیاں عوام کے مسائل کے تدارک کی جانب ہونی چاہئے ،لیکن اس سیلابی صورت حال میں جب ساری دیگر سرگرمیاں جاری ہیں تو انتخابات بھی ہو سکتے تھے ،کیو نکہ انتخابی حلقوں میں ایک آدھ کو چھوڑ کر تمام ایسے علاقے ہیں کہ جہاں سیلاب ہے نہ امدادی سرگرمیوں میں ادارے مصروف ہیں،اس کے باوجود سیلابی سر گرمیوں کا بہانہ بنایا جارہاہے

،الیکشن کمیشن استعفوں کی منظوری سے لے کر ارکان پارلیمان کی نشستوں تک کے اعلان میں تو کوئی پھرتیاں نہیں دیکھائیں ،مگر فارن فنڈنگ کیس سے لے کر ضمنی انتخابات کے ملتوی کرنے میں فوری فیصلے ہو رہے ہیں ،اس سے الیکشن کمیشن کی جانبداری مشکوک ہو نے لگتی ہے۔
یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ اس الیکشن کمیشن کے سامنے ہی سرعام ارکان نے پارلیمان کی خرید وفروخت کی مندی لگتی رہی

،لیکن وہ خاموش تماشائی بنا سب کچھ دیکھتا رہا ہے ،اگر چہ ایک اکثریت رکھنے والی سیاسی جماعت کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے بظاہر قانونی طریقہ ہی اختیار کیا گیا، لیکن اس قانونی عمل کی انجام دہی جس غیر جمہوری طریق سے ہوئی،وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ، ساری عوام نے اپنی آنکھوں سے ہارس ٹریدنگ،لالچ اور دباو کا سلسلہ درازہوتے دیکھا ہے، ایک ایسے وقت میں الیکشن کمیشن منحرف اراکین کے حوالے سے بر وقت فیصلہ کر کے بحران کو روک سکتا تھا،لیکن الیکشن کمیشن نہ صرف اپنے آئینی فرائض کی انجام دہی میں ناکام رہا

،بلکہ اس کے فیصلوں سے شکایات بھی پیدا ہوئیں،اس کا ثبوت بعد ازاں اعلیٰ عدلیہ کا فیصلہ ہے کہ جس میں منحرف اراکین کو نا اہل قرار دے کر پنجاب میں ضمنی انتخابات کرانے کا حکم دیا گیا، یہ انتخابات ہی پنجاب اور مرکز میں بر سر اقتدار پی ڈی ایم کے لئے بھیانک خواب ثابت ہوئے اور پی ٹی آئی کو پنجاب میں دوبارہ حکومت بنانے کا موقع مل گیا ہے۔

بلا شبہ ایک طرف پنجاب میں پی ٹی آئی کو اقتدار ملنا مرکزی حکومت کے لئے کئی سیاسی نقصانات کا باعث بنا ہے تو دوسری جانب ہر گزرتے دن کے ساتھ عمران خان کی بڑھتی مقبولیت سے دھڑکا لگا ہے کہ آئندہ انتخابات میں پی ڈی ایم کے امیدوار کامیاب نہیںہو سکیں گے،اس لیے اتحادی حکومت ہر انتخاب سے راہ فرار اختیار کر نے میں ہی اپنی افیت سمجھتی ہے،اتحادی بظاہر ضمنی انتخابات کے التوا پر مایوسی کا اظہارکرتے ہوئے اندسے خوش ہیں کہ وقتی طور پر ایک بڑے سیاسی نقصان سے بچانے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ مدد گار ثابت ہوا ہے ،الیکشن کمیشن ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہے ،

لیکن اس کی جانبداری پر پی ٹی آئی لگاتار الزامات لگاتی آرہی ہے،اس طرح کی الزام تراشی قطعی نامناسب ہے ،تاہم اس وقت ضمنی الیکشن کے التوا سے متعلق فیصلہ بلا جواز نظرآتا ہے،اس پر الیکشن کمیشن کو نظرثانی کرتے ہوئے نہ صرف تحفظات دور کرنے چاہئے ،بلکہ بروقت انتخابات کے انعقاد کو بھی یقینی بنانا چاہئے ،اس وقت انتخابات کے التوا کے بجائے انتخابات کے انعقاد سے ہی سیاسی عدم اعتماد کی فضاء کو بہتر بنایا جاسکتا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں