118

علوم عصر حاضر سیکھنے کا حکم قرآنی

علوم عصر حاضر سیکھنے کا حکم قرآنی

نقاش نائطی
۔ +966562677707

2026 لداخ سرسوتی پہاڑی پر قائم انڈین ٹیکنیکلی ریموٹری ایسٹرنومیکل آبزرویٹری1444 سال قبل اس مالک و خالق و ارض سماوات نے،اس وقت امی عرب سمجھے جانے والے محمد ﷺ بن عبداللہ بن عبدالمطلب کو، اپنے نبی آخرالزمان خاتم الانبئاء رحمت اللعالمین کےمنصب تمکنت پر براجمان کرنا چاہا تو,اپنے مقبول فرشتہ حضرت جبریل علیہ السلام کے توسط سے،امی وقت کے نام جو پہلا آسمانی پیغام، محمد مصطفی ﷺ تک پہنچایا تھا

اس کی پہلی دو آیات:- “اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ” (1)”خلق الإنسان من علق” (2) ترجمہ “اپنے رب کے نام سے پڑھو جس نے پیدا کیا” (1) “اس نے انسان کو (خون کے) لوتھڑے سے پیدا کیا” (2) پہلی آیت حکم تحکمی ہے دوسری آیت کو پڑھنے کے لئے، سمجھنے کے لئے،اور اس پر عمل کرنے کے لئے۔ آنسان کو خون کے لوٹھڑے سے ماں کے ہیٹ میں پیدا کئے جانے کی تحقیق ابھی 16 صدی کے آخر 1590 میں زیچیریس جنسین (Zacharias Janssen) کے ہاتھوں خوردبین دریافت کئے جانے کے بعد ہی ممکن ہوپائی تھی

۔ لیکن قرون اولی کے مسلمان جب تک اس آیت کریمہ پر عمل پیرا رہتے، بر و بحر ،صحراء و غابات (جنگلات) و جبل( پہاڑ)، و ارض و سماوات و شمس و قمر و نجوم اور جمیع مخلوقات مابین ارض و سماوات پر، قرآن کریم تعلیمات کی روشنی میں تدبر و تحقیق کرتے رہے، عالم کی تمام تر قوتین انکے قدموں پر سرنگوں رکھ چھوڑ دی گئیں تھیں، بجز اسکے کے، ان آٹھ سو سالہ خلافت راشدہ، عباسیہ، بنو امیہ و 6 سو سالہ خلافت عثمانیہ سمیت تمام مسلم خلافتی ادوار میں، مسلمان سائینس دان، قرآن کے اس دوسری آیت کریمہ والے حکم اولین رب تعالی کی اس گتھی کو حل کرنے میں ناکام رہے، لیکن موجودہ دور کی

سائینسی تمدنی ترقیات کے بہت سے ابواب کو وا کرتے ہوئے،عصر حاضر کو، جو سائینسی ترقی پزیری پر لاچھوڑا ہے، اس میں ہم مسلم محقیقین کا بڑا واضح کردار نہ صرف رہا ہے بلکہ دنیا اسے تسلیم بھی کرتی ہے۔ ابھی سو سسل پہلے ختم یوئی خکافت عثمانیہ کے ڈیر استنبول میں، شمس و قمر و نجوم پر نظر رکھنے

والی صدا آسمانوں ہر نظر رکھنے والی،اپنے وقت سب سے جدید آبزرویٹری موجود تھی لیکن آج اس ترقی پذیر زمانے میں اللہ کے عطا پٹرول ڈالر و سیم وزر سے مالامال 50 سے زائد مسلم ملکوں نے عصری علوم تحقیقاتی مختبر گاہیں یا آبزرویٹریس کیا قائم کی ہیں؟ سوائے چھوٹے سے ملک پاکستان کے جو اپنے پڑوسی دشمن ملک کے خوف و تقابل ہی کی بنیاد پر کچھ حد تک آلات حربی ڈرون و راکٹ و میزائل سازی میں کچھ حد تک ترقی پزیری کے مدارج طہ کررہا ہے

سابقہ بارہ سو سالہ مسلم ترقی پزیزی کا راز شاید ماقبل اسلام کی قوت عالمی، روم و فارس کی مسیحی یہودی قوتیں جان چکی تھیں، اسلئے سقوط غرناطہ اسپیں بغداد بعد، اس وقت کی عالمی حربی قوت فرنگی مسیحیوں نے، ایک سوچی سمجھی عالمی سازش کے تحت، ہم مسلمانوں کو، علوم عصر حاضر سے ماورا رکھنے ہی کے لئے، علماء وقت کو جان کی آمان کے بدلے، ” طلب العلم فريضة على كل مسلم” ترجمہ “حصول علم ہر مسلمان پر فرض ہے” اس حدیث مبارکہ میں، جس علم کے حصول کو ہر مسلمان کے لئے فرض قرار دیا گیا تھا،

قرآن مجید کی اتاری گئی پہلی و دوسری آیت میں حکم الہی کے ذریعہ مسلمانوں پر لازم ملزوم کئے گئے علم عصر حاضر کو، علم دین سے بدل کر، عالم کے تقریبا تمام مسلمانوں کو، علوم دین اسلام کے حصول کی خاطر، مسجدوں مدرسوں اور خانقاہوں کی قباؤں، گنبدوں کی چہار دیواروں کے درمیان، مقید بناکر رکھ دیا گیا تھا اور جو کوئی مسلمان، علوم عصر حاضر کی طرف مائل ہوتا، اسے اسلام دشمن یا دین بیزار ظاہر قرار دے، اسے لادین بننے پر مجبور کیا جاتا رہا اسی کا نتیجہ تھا 1450 میں گولڈ اسمتھ اور جوھنیس گوٹینبرگ نے پرنٹنگ مشین ایجاد کی اور اسے تجارتی انداز بیچنے کے لئے،

اس وقت اسلامی خلافت عثمانیہ کے پاس ترکیہ لے آئے تو ہم مسلمان علماء کرام کی ستم ظریفی تھی کہ انہوں نے اس طباعتی ایجاد کو، اسلامی کتب طباعت ترویج عالم سے دین اسلام کی نشر و اشاعت کرنے کے بجائے، اس مشینی طباعتی نظام ہی کو، دین اسلام کے لئے مضر و خطرناک صیہونی منصوبہ ظاہر کرتے ہوئے، عثمانی خلافت والے تقریبا نصف عالم پر، اس پرنٹنگ نظام ہی کو ممنوع قرار دیتے ہوئے، عالم میں دین اسلام کی ترویج ہی کو گویا ایک طرح بریک لگا دیا تھا۔ ایک طرف نصف عالم اسلام عثمانی سلطنت میں پرنٹنگ نظام ممنوع قرار دیاگیا تو دوسرے نصف عالم میں، برطانوی سامراج نے

، اسی پرنٹنگ پریس سے مسیحی مواد کثیر تعداد طبع کرواتے ہوئے، عالم بھر میں اسے پھیلاتے ہوئے، دین مسیحیت کو عالم کی سب سے بڑی اکثریت میں بدلنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا تھا علماء وقت کے اس تجاھل عارفانہ سے، ایک طرف دین اسلام کی ترویج و اشاعت نہ صرف رک سی گئی تھی،بلکہ سوچی سمجھی سازش کے تحت ہم مسلمانون کے قلب و ذہن و تفکر سے، جہادی جذبات کھرچ کھرچ نکال ہی دئیے گئے تھے،

تو دوسری طرف کئی سو سالوں سے علوم قرآنی کی رہنمائی میں علوم عصر حاضر ارض و سماوات، بر و بحر، جبل و صحراء و غابات، شمس و قمر و نجوم پر تدبر وتفکر کرنے والے ہم مسلمان،اپنی جبلت تدبریئت، تفکرئیت کو، علوم قرآن وحدیث پر صرف کرتے ہوئے، اللہ کے رسولﷺ کی پیشین گوئی کے عین مطابق، قوم یہود کے 72 فرقوں سے ایک زاید، دین اسلام کو احمدیت، قادیانیت بریلویت، رافضئیت،جیسے انیک گمراہ 73 فرقوں کے وجود کا سبب بن چکے ہیں۔ اللہ کا بڑا فضل و کرم ہے، بابری مسجد شہادت کے بعد، بھارت میں پنپتی اسلام دشمن سوچ نے، بھارت کے ہم مسلمانوں میں، اثاث علم دین کی روشنی میں، علم عصر حاضر کو، سیکھنے کی اہمیت ایک حد تک جتا اور بتا دی ہے

ایک طرف ہم مسلمان ایک دوسرے کو فرنگی سامراج کی ناجائز اولاد ثابت کرتے ہوئے، کافر کافر کے فتوے لگانے ہی میں مست ہیں تو، دوسری طرف یہود و ہنود و نصاری علوم شمس و قمر و نجوم میں کس حد تک آگے جاچکے ہیں، ذرا بھارت کے لداج پہاڑیوں پر قائم، بلجیئم کی مدد سے 2016 عالم کی ایک اہم ٹیکنیکلی ریموٹری ایسٹرنومیکل آبزرویٹری اور اس کے شمش و قمر و نجوم و نظام فلکی پر تدبر و تفکر کرانے والے ماحول و پس منظر پر بھی نظر دوڑائی جائے۔ اور ہم مسلمانوں کے ان علوم ارض و سماوات ماورائیت پر بھی تدبر و تفکر کیا جائے 

بحیثیت مسلمان اپنے خالق و مالک عالم،ارض و سماوات کے رازق ہونے پر ایمان کامل رکھنے والے ہم مسلمانوں کے لئے ،حصول رزق کی فکر سے ماورا، مختلف اقسام کے علوم، ارض و سماوات پر نظریں مرکوز رکھنے اور آگے بڑھنے میں ہمارے لئے ممد ومددگار ثابت ہوسکتی ہیں، یاد رکھیں جو کوئی جس کسی بھی لائن کی محنت کرتا ہے اس میں اسے یکتائیت حاصل ہوہی جاتی ہے اور علوم و ارض و سماوات میں یکتائیت حاصل کرنے والوں کے قدموں پر یقینا یہ دنیا سرنگوں پائی جائے گی۔ انشاءاللہ۔ اس لئے آج کے بعد ہم مسلمانوں کو، اپنے دینی اثاث کے ساتھ علوم عصر حاضر کے حصول کی طرف توجہ مرکوز کرنی از حد ضروری ہے۔ وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں