’’اپوزیشن اتحاد دفن شد‘‘ 369

’’سینٹ و چیئر مین سینٹ الیکشن کا نوحہ‘‘

’’سینٹ و چیئر مین سینٹ الیکشن کا نوحہ‘‘

تحریراکرم عامر سرگودھا
فون،03008600610
وٹس ایپ،03063241100

حالیہ چیئرمین سینٹ الیکشن کے نتائج نے سیاسی ماحول مزید آلودہ کر دیا ہے، اور ساتھ سیاسی گرما گرمی میں بھی اضافہ ہو گیا ہے، اپوزیشن نے سینٹ کی وفاق کی نشست پر حکومت کے 14ارکان اسمبلی کے ووٹ خرید کر حکومتی امیدوار حفیظ شیخ کو شکست دے کر یوسف رضا گیلانی کو جتوا کر حکومت اور کپتان کو جو گھاؤ لگایا تھا، چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں حکومت نے48ووٹ لے کرصادق سنجرانی کو کامیاب کراکر اس کا بدلہ چکا دیا ہے اور اپوزیشن کو چکر آگئے ہیں، اپوزیشن کو چکر آنے کی ایک وجہ ان کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کے سات ووٹ کا مسترد ہوناہے

جو پریزائیڈنگ آفیسر نے محض اس بنا پر مسترد کیے کہ ان بیلٹ پیپرز پر مہر خانے کی بجائے یوسف رضا گیلانی کے نام پر لگی ہوئی ہے، بقول اپوزیشن اگر سات ووٹ مسترد نہ ہوتے تو اپوزیشن کے یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینٹ ہوتے، حالیہ چیئرمین سینٹ الیکشن کے نتائج آئے تو سینٹ الیکشن کے پولنگ سے دو روز قبل ارکان اسمبلی کی منظر عام پر آنے والی وڈیو کا خیال ذہن میں آگیا جس کے بارے پی ٹی آئی کاموقف تھاکہ اپوزیشن ان کے ارکان اسمبلی کو بھاری رقوم کی پیش کش کررہی ہے ،اورپھر وفاق کی سینٹ نشست جس پر یوسف رضا گیلانی کامیابی ہوئے پر پوری قوم نے دیکھا کہ پی ٹی آئی کے 14ارکان قومی اسمبلی نے اپنے پارٹی کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیا، جس پر حکومت بالخصوص پی ٹی آئی کے کپتان کو ایسا جھٹکا لگا

کہ کپتان چکرا کر رہ گئے اور اسے فوری طور پر ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینا پڑا، اس وڈیو بارے موسی گیلانی کا موقف تھا کہ وہ تو ارکان قومی اسمبلی کو ووٹ کینسل کرانے کا طریقہ بتارہے تھے، سو اب حکومت اور اس کے اتحادی چیئرمین سینٹ اور ڈپٹی چیئرمین مین سینٹ اپنی پارٹی کا جتوا کرکہہ رہے ہیں کہ اب کی بار موسی گیلانی اپنے ہی سینٹرز کو ووٹ ضائع کرنے کی ترغیب دیتے رہے، جس پر اپوزیشن کے آٹھ ارکان اسمبلی نے خوب عمل کیا اوربیلٹ پیپر پر یوسف رضا گیلانی کے نام پر مہر لگا کر ووٹ ضائع کردیا اس طرح یوسف رضا گیلانی چیئر مین سینٹ کا الیکشن ہارگئے، یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا چیئرمین سینٹ کا الیکشن ہے جس میں سو کے ایوان میں اٹھانوے ووٹ کاسٹ ہوئے جن میں سے آٹھ ووٹ مسترد ہوگئے، ماضی میں اتنی بڑی تعداد میں چیئر مین سینٹ کے کسی الیکشن میں ووٹ مسترد نہیں ہوئے،اوریہ بھی عجب ماجرہ دیکھنے میں آیا کہ مسترد ہونے والے ووٹوں کی مہر ایک ہی طرز پر لگی ہوئی پائی گئی، جو اس بات کی دلیل ہیں کہ ان سینٹرز نے دیدہ دانستہ ایسا کیاکہ ان کا ووٹ مسترد ہو جائے

اور اس کا فائدہ حکومت کے امیدوار کو ہو،ورنہ جن سینٹرز کے ووٹ چیئرمین کیلئے کینسل ہوئے ہیں وہ اتنے بھی جاہل نہیں تھے کہ انہیں یہ پتہ نہیں تھا کہ مہر بیلٹ پیپر کے خانے میں لگانی ہے یا نام پر،سو اب اپوزیشن کی قیادت کہتی ہے کہ ان کہ ساتھ چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے،اورپریزائیڈنگ آفیسر نے ووٹ غلط مسترد کئے ہیں ،کیونکہ ووٹر نے یوسف رضا گیلانی کے نام پر مہر لگا کر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ یوسف رضا گیلانی کو ہی ووٹ دینا چاہ رہے ہیں،اپوزیشن نے چیئرمین سینٹ کے الیکشن کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا ہے، اور ساتھ دھمکی دی ہے کہ وہ نو منتخب چیئر مین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد لانے کی بھی پوزیشن میں ہیں، شاید اپوزیشن جلدبازی میں یہ اعلان کرتے ہوئے بھول گئی ہے

کہ عدم اعتماد سردست چھ ماہ تک نہیں ہوسکتا،اورشاید انہیں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ ماضی میں بھی صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تھی جو مقدر قوتوں نے ناکام بنادی تھی ،پیپلزپارٹی شاید یہ بھی بھول رہی ہے کہ پچھلے الیکشن میں صادق سنجرانی کو امیدوار نامزد کرنے والوں میں سر فہرست آصف علی زرداری تھے،جنہوں نے صادق سنجرانی کی کامیابی کیلئے خوب کھیل کھیلا تھا ،جواب کی بار پی ٹی آئی کا کپتان کھیل گیا، اور اس نے اپوزیشن کو ناک آئوٹ کر دیا ہے، اسی بناء پر سات سینٹرز نے اپنے ووٹ دانستہ غلط مہر لگا کر مسترد کرائے،جس کی واضح دلیل ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا الیکشن ہے جس میں انہی سات میں سے چھ سینٹرز نے حکومتی امیدوار مرزا آفریدی کو دیا، اور وہ 54ووٹ لے کر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے، جبکہ مولانا عبدالغفور حیدری کو ان کے 6اتحادیوں نے ووٹ نہ دئیے، ذرائع کہتے ہیں

کہ اس کی وجہ بلوچستان کے اپوزیشن سینیٹرز کی مولانا فضل الرحمان سے ناراضگی تھی، جس کی بناء پر ان سینیٹرز اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے مل کر مولانا فضل الرحمان کو نیچا دکھایا؟ سو اب اپوزیشن معاملہ کو سپریم کورٹ میں لے جائے گی اور حکومت اور اپوزیشن میں قانونی جنگ ہوگی،تاہم یہ بات واضع ہے کہ ملکی تاریخ میں یہ پہلا سینٹ الیکشن ہے جو اتنا متنازع ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت بالخصوص دنیا بھر کے جمہوری حلقے اس پر سوال اٹھا رہے ہیں، چیئرمین سینٹ کے حالیہ الیکشن پر اپوزیشن کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ سینٹ الیکشن کے طریقہ پر نظر ثانی ہونی چائیے ،تاکہ ہر بار کی طرح آئندہ اپ سیٹ نہ ہوں،یہی پی ٹی آئی کا کپتان بھی سینٹ الیکشن سے پہلے کہتا تھا

اور اسی تناظر میں پی ٹی آئی کے صدر مملکت عارف علوی نے سینٹ الیکشن 2021کے حوالے سے آرڈیننس جاری کیا تھا، جس کے تحت سینٹ الیکشن شوآف ہینڈ کے زریعے کرانے کا کہا گیا تواپوزیشن نے اس کی مخالفت کی،اور خفیہ ووٹنگ کرانے کیلئے تمام جتن کئے،جس میں اپوزیشن کامیاب بھی رہی اور سینٹ میں خفیہ رائے شماری پر مٹھائیاں تقسیم کیں،جیالے متوالے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے،سینٹ الیکشن میں وفاق کی نشست پر اپوزیشن نے خفیہ ووٹنگ کا فائدہ بھی اٹھایا، جس کے نتیجہ میں یوسف رضا گیلانی سینیٹر بنے، لیکن چیئرمین سینٹ اور ڈپٹی چیئر مین سینٹ کے الیکشنز میں کپتان نے خوب دھوبی پٹخہ مارا اور میدان جیت لیا،اوراب اپوزیشن اسی انتخابی عمل کو کوس رہی ہے

اور کہہ رہی ہے کہ اگر الیکشن شو آف ہینڈ کے ذریعے ہوتے تو اب کی بار پچھلے الیکشن کی طرح چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینٹ ان کا اتحادی ہوتا،جو حکومت کے لئے قانون سازی کی راہ میں رکاوٹ بنتا، اور اپوزیشن حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتی، اپوزیشن چونکہ ایوان میں پچاس سینٹرز کی دعویدار ہے اور حکومت کے ایوان میں 48سینٹرز ہیں،ایک سینٹرز مشتاق احمد جماعت اسلامی کے ہیں جو ہیں تو حکومت مخالف ،لیکن جماعت اسلامی حکومت اور اپوزیشن کو ایک ہی تھالی کا بینگن قرار دیتی ہے،اسی بنا پر جماعت اسلامی کے سینٹر مشتاق احمد نے سینٹرز اور چیئرمین وڈپٹی چیئرمین کے چناؤ میں اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا ،جبکہ مسلم لیگ ن کے سینیٹر اسحاق ڈار نیب کے ریڈار پر ہونے کی بنا پر بیرون ملک پناہ لیے ہوئے ہیں اور موصوف کا کپتان کے دور میں ملک واپس آنے کا کوئی چانس نہیں۔
سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی

بات ہورہی تھی سینٹ الیکشن میں اپ سیٹ کی جو 2006سے سینٹ کے ایوان کے ہر الیکشن میں ہوتے آئے ہیں اور سینٹ الیکشن میں ہربار بڑے پیمانے پر ہارس ٹریڈنگ دیکھنے میں آئی ہے ،جو سیاست میں انتہائی گندا کھیل ہے جس میں عوامی مینڈیٹ بیچ کر ارکان اسمبلی ووٹ کی بے حرمتی کرتے ہیں ،لیکن دوسری طرف نظر دوڑائیں تو یہی ارکان اسمبلی اورسیاست دان ہر فورم پر ووٹ کوعزت دو کا نعرہ لگاتے دیکھے جا رہے ہیں جو سیاستدانوں کا دوہرا معیار سیاست ہے اگر سیاستدان واقعی ووٹ کو عزت دلوانا چاہتے ہیں تو سینٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے

اس کا طریقہ کار بدلنا ہوگا ،ایسا ہونے کی صورت میں نہ ایوان میں پولنگ بوتھ پر نہ کیمرہ لگانا پڑیں گے اور نہ ہارنے والا پریزائیڈنگ آفیسر کو جانبدار قرار دے گا،اس صورت میں ملک میں جمہوریت مضبوط ہوگی ورنہ ہر سینٹ الیکشن کے بعد دھاندلی کاشور اٹھتا رہے گا اور ہر سینٹ الیکشن کے نتائج عدالتوں میں چیلنج ہوتے رہیں گے جیسے کہ 2021سینٹ الیکشن وفاق کی نشست کے بعد چیئرمین سینٹ کے الیکشن عدالت میں چیلنج ہونے جارہے ہیں۔ سو اس لئے اپوزیشن اور حکومت کو سوچنا ہو گا؟ورنہ سیاست کے گھنائونے کھیل کے ستائے عوام ایسا انقلاب لائیں گے کہ حکومت اور اپوزیشن کو بہا کر لے جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں