شہہ رگ پاکستان کی آزاد ی! 201

مافیا پر ہاتھ پڑے گا تو تبدیلی نظر آئے گی !

مافیا پر ہاتھ پڑے گا تو تبدیلی نظر آئے گی !

تحریر :شاہد ندیم احمد
ملک کی سیاسی قیادت کا کام خدمت خلق کر کے عوام کے مسائل کم کرنا ہوتا ہے ،لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے، یہاں پر کرائے کے مکان میں رہ کر کونسلر منتخب ہونے والے کے پانچ برس میں نہ صرف اپنے کئی گھر کرائے پر ہوتے ہیں،بلکہ اس کے بینک اکائونٹس پیسوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کے دیگر ممالک میں اتنی اندھیر نگری نہیں ہوتی ، وہاں پر لوٹ مار‘ کرپشن‘ اقربا پروری دور تک نظر نہیں آتی ،کرپشن کرنے والوں کو کڑی سزا ئیںملتی ہیں،بسااوقات انہیں جان سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں،مگر پاکستان میں احتساب کی بات کی جائے،قبضہ مافیا سے زمین گزاری کرونے کی کوشش کی جائے تو سیاسی انتقام کے نعرے لگنا شروع ہو جاتے ہیں،اپوزیشن کے احتسابی عمل کی مخالفت کے باوجود حکومتت نے36 سیاسی رہنمائوں سے 24 ارب روپے کی زمینیں واگزار کروائی، جبکہ پنجاب سے 210 ارب روپے کی ریکوری ہوئی ، ان سب افراد کا

تعلق ایک ہی سیاسی جماعت سے تھا،یہ لوگ نہ جانے کب سے سرکاری وسائل پر قابض ہو کر اپنی ذات کے لیے استعمال کر رہے تھے، تاہم دیگر سیاسی جماعتو ںکے افراد بھی دودھ کے دھلے نہیں ، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ بلاتفریق احتسابی عمل جاری رکھے، تاکہ ملک سے کرپٹ عناصر کا مکمل صفایا کیا جا سکے،حکومت کرپٹ مافیا پر سخت گرفت کرے گی تو ہی تبدیلی نظرآئے گی۔یہ امرواضح ہے کہ ماضی کے حکمرانوں نے نہ صرف قومی خزانہ بڑی بے دردی سے لوٹا ،بلکہ اپنے حلیفوں کے غیرقانونی کا گزاریوں کی بھی سر پرستی کرتے رہے ہیں، حکومت نے کرپٹ مافیا پر ہاتھ ڈالا تو چیخیں اپوزیشن قائدین کی نکلنے لگی ہیں ۔یہ محض اتفاق تو نہیں ہو سکتا کہ 24 ارب روپے کی

سرکاری اراضی کا قبضہ صرف 36 مسلم لیگی رہنماؤں سے چھڑایا گیا ہے ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں خوب لوٹ مچائی گئی، لیکن شہبازشریف تواپنے دس سالہ پنجاب کے دور اقتدار میں میرٹ اور قانون کی باتیں کرتے تھے، پھر ان کے دورِ حکومت میں یہ قبضے اور لوٹ مار کیسے ہوتی رہی ہے، اگرچہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماء زمینوں کی واگزاری کے عمل کو سیاسی انتقام کہتے ہوئے عدالتوں میں جانے کی وارننگ دے رہے ہیں،مگر وزیر اعظم کے مشیر شہزاد اکبر نے سرکاری زمینوں کے قبضے چھڑانے کی جوتفصیل بیان کی ہے،

اس حو الے سے متاثرہ مسلم لیگی کوئی ثبوت پیش نہیںکررہے ہیں ۔ دراصل ہمارے ہاں ہر الزام کا سادہ سا جواب ہوتاہے کہ سب کچھ سیاسی انتقام کی وجہ سے کیا جا رہا ہے، اس بار کچھ اضافہ بھی کر دیا گیا ہے کہ ہمیں نوازشریف کے ساتھ وفاداری کی سزا دی جا رہی ہے،لیکن نوازشریف سے وفاداری تو ہر مسلم لیگی رکھتا ہے، اگر زمینیں واگزار کرانے کا یہی سبب ہے تو پھر ایسے ہزاروں کیسز بننے چاہئیں، مگر یہاں تو صاف نظر آ رہا ہے کہ صرف انہی مسلم لیگی رہنماؤں نے مبینہ قبضے کئے جو شریف برادران کے قریب سمجھے جاتے ہیں یا مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے جن کا سرگرم کردار ہے۔
یہ امر قابل غور ہے کہ مسلم لیگ( ن)کے رہنمائوں کی بڑی تعداد ہی ایسے غیر قانونی کاموں میں کیوں ملوث رہی ہے ،کیاانہیں کھلی چھٹی دیدی گئی تھی یا شریف برادران کے ساتھ وابستگی کا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا ہے، کیا سوچ کر ناجائزقبضے کئے گئے؟ کیا قانون کا خوف ختم ہو گیا تھا یا یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ قانون تو گھر کی باندی ہے، اسی لئے زیادہ ترکرپٹ لوگ سیاست میں آنے لگے ہیں کہ راتوں رات لکھ سے ارب پتی بنا جاسکے، کیاکوئی جائز طریقے سے اتنی ترقی کر سکتا ہے کہ جتنی ترقی ہمارے بعض سیاستدانوں نے کی ہے۔ہمارے ہاں سیاست خدمت خلق کے نام پر کاروبار بن کر رہ گئی ہے ،سیاست کے کاروبار میں کوئی قانون کوئی اصول نہیں ،ہر طریقے سے اپنے مفادات کے حصول کو یقینی بنایا جارہا ہے ،

اگر کہیں کوئی روکاوٹ آئے تو سیاسی انتقام کا نعرا گونجنے لگتا ہے ،اپنے غیر قانونی کاموں پر دفاع کے ساتھ ایک دوسروں پر الزام تراشی کی جاتی ہے ۔عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہردور حکومت میں قبضہ مافیا کو سیاسی سر پرستی حاصل رہی ہے ،اس لیے مسلم لیگی رہنماء صرف اپنے غیر قانونی قبضوں کا دفاع نہ کریں، بلکہ انہیں چاہئے کہ موجودہ حکومت سے تعلق رکھنے والے ایسے لوگوں کی بھی نشاندہی کریںکہ جنہوں نے سرکاری زمینوں پر ناجائز قبضے کر رکھے ہیں،تاکہ ثابت کیا جاسکے کہ وزیر اعظم عمران خان صرف سیاسی انتقام کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ گزشتہ دور حکومتوں میں سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کیلئے احتساب کا نام استعمال کیا جاتا رہا ہے ،تاہم اس بار حکومت بلا امتیاز احتسابی عمل کی دعوئیدار ہے ،جبکہ اپوزیشن ماننے کیلئے تیار نہیں کہ بلا امتیاز احتساب ہو رہا ہے ، ملک بھر میں موجود مافیاکو حکومت نکیل ڈالنے کی کوشش کررہی ہے، مگراپوزیشن اسے بھی سیاسی انتقام سے ہی جوڑنے پر تلی ہے ،جبکہ دیکھا جائے توملک بھر میں مختلف محکموں اور اداروں کا لاکھوں کنال سرکاری رقبہ قبضہ گروپوں کے پاس ہے، اس میں ریلوے اور اوقاف کی املاک کے علاوہ پبلک پارک، اسکول، کالج، یونیورسٹیاں، اسپتال اور مزارات شامل ہیں، یہاں تک کہ ہر چھوٹے بڑے شہرمیں لوگوں نے فٹ پاتھوں پر بھی قبضے جما رکھے ہیں،

دکانوں اور مارکیٹوں کے سامنے تھڑے بنانا معمولی بات سمجھی جاتی ہے،ہر دور حکومت میں قبضہ مافیا کے خلاف کاروائی شروع ہونے پر مصلحتیں آڑے آتی رہی ہیں ،اس بار بھی حکومت جوش و جذبے سے قبضہ مافیا کا خاتمہ کرنے نکلی ہے تو سر پرستوں نے شور مچا نا شروع کردیا ہے ،ایک ناجائز کھو کھر پیلس گرنے پر مسلم لیگی رہنمائوں کی چیخو پکار تھمنے کا نام نہیںلے رہی ہے، تاہم اگرحکومت نیک نیتی سے یو نہی کسی بھی فریق کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے فی الواقع قبضہ گروپ سے ہر چھوٹی بڑی سطح پر سرکاری جائیدادیں واگزار کرانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو نہ صرف اس کے شہری خدوخال پر نہایت خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے، بلکہ حکومتی کارکردگی پر کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہیں ملے گااورتبدیلی کے اثرات بھی نظر آنے لگیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں