غزہ کاالمیہ
جمہورکی آواز
ایم سرور صدیقی
یہ جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں امریکی امدادی مرکز کاایک منظرہے پھٹے پرانے خون آلود کپڑوں میں ملبوس بھوک سے بلکتے،سسکیاں لیتے خواتین ،مرد اور بچے اپنی باری کے منتظر تھے کہ اچانک مصیبت کے ماروں پر ایک اور قیامت ٹوٹ پڑی امداد کے لئے آئے ہوئے فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج نے ٹینکوں سے گولا باری اور فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں کم سے کم 31 فلسطینی شہید اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے۔ رفح میں نتزاریم راہ داری پر خوراک کی تقسیم کے امریکی مرکز پر ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی جمع تھے حملے کے بعد اسرائیلی فوج نے ایمبولینسوں کی زخمیوں تک رسائی بھی روک دی
ایک درجن سے زیادہ زخمی ہونے والوںنے وہیں تڑپ تڑپ کرجان دے دی شہید ہونے والوں میں بچوںکی اکثریت ہے اس کا مطلب ہے کہ یہودی جان بوجھ کربچوں کو نشانہ بنارہے ہیں جو فلسطینیوںکی نسل کشی کی بدترین شکل ہے ۔ نئی قائم کی جانے والی غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن نے پیر سے کام کا آغاز کیا ہے، تب سے اب تک اسرائیلی فوج امداد کے حصول کے لئے آ نے والوں چوتھی بار حملہ چکی ہے۔ بچوں کی معصوم مسکراہٹیں آہوں اور سسکیوں میں بدل جائیں تو انسانیت کا سر جھک جاتا ہے،
غزہ میں عمارتوں کے ملبے تلے دبی ہزاروں ننھی لاشیں اسرائیلی جارحیت پر عالمی بے حسی کا نوحہ ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی بمباری سے تباہ عمارتوں کے نیچے ہزاروں معصوم بچے بھی دفن ہوگئے، کشمیر کی فضائیں اْن بچوں کی سسکیوں سے بوجھل ہیں جنہیں تا ابد خاموش کر دیا گیا رحیت کا شکار بچوں کا المیہ انسانی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسیف نے بتایا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اکتوبر 2023ء سے جاری اسرائیلی حملوں میں اب تک 50 ہزار سے زائد بچے شہید اور زخمی ہوئے ہیں اسرائیلی حملوں کے باعث غزہ کی پٹی میں ہر 20 منٹ میں ایک بچہ شہید ہو رہا ہے
ادھراقوام متحدہ کے ادارے برائے ہنگامی انسانی امداد کے سربراہ ٹام فلیچر نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا غزہ میں امداد بھیجنے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں نبھائے۔ نشریاتی ادارے کے نمائندے کی جانب سے ٹام فلیچر سے سوال پوچھا گیا کیا کسی کو جبری طور پر بھوکا رکھنا جنگی جرم ہے؟ ٹام فلیچر نے جواب میں بتایا ہاں ایسا ہے، اس کو جنگی جرم کے طور پر جانا جاتا ہے، یقینی طور پر یہ فیصلہ عدالت کو کرنا ہوتا ہے، ورنہ اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی انہوں نے خبردارکیا
کہ غزہ میں جلد امداد نہ پہنچی تو 14 ہزار بچوں کی ہلاکت کا خدشہ ہے وہ اگلے 48 گھنٹوں میں ان 14,000 بچوں میں سے جتنے زیادہ ہو سکے ان کی جان بچانا چاہتے ہیں پانچ ٹرکوں میں لائی گئی امداد ضرورت کے مقابلے میں ’’سمندر میں ایک قطرہ‘‘ ہے۔ امدادی سامان، جس میں ’’بچوں کے لئے خوراک ‘‘ شامل ہے، سرحد کے دوسری طرف موجود ہے، لیکن ابھی تک کسی بھی کمیونٹی تک نہیں پہنچائی جاسکی ہے۔ حالات کے تناظرمیں برطانیہ، فرانس اور کینیڈا نے زوردیاہے کہ اسرائیل جنگ بند کرے اور انسانی امداد کو غزہ میں داخل ہونے دے جبکہ فرانسیسی وزیر خارجہ کا کہناہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں امداد کی رسائی میں نرمی ناکافی ہے: فلیچر نے امید ظاہر کی کہ وہ منگل کے روز 100 ٹرک غزہ میں داخل کروا سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں انسانی امداد سے غزہ کو بھر دینا چاہیے۔ نائب سیکریٹری جنرل نے برطانیہ، فرانس اور کینیڈا کی جانب سے غزہ میں انسانی بحران سے نمٹنے کے اسرائیلی طریقہ کار کی مذمت کو خوش آئند قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سخت الفاظ تھے، لیکن اصل امتحان یہ ہے کہ اقوام متحدہ مزید امداد غزہ میں پہنچا سکتی ہے یا نہیں۔ ایک طرف غزہ میں بے گناہ فلسطینیوں کے خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے تو دوسری جانب بے شرم اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے اشتعال انگیز بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہم مغربی کنارے میں یہودی اسرائیلی ریاست بنائیں گے۔ انکا کہنا تھا کہ ہمیں کمزور اور نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے والی دہشت گرد تنظیموں کیلئے یہ ہمارا فیصلہ کن ردعمل ہے۔
اسرائیل کاٹز نے کہا کہ فرانس کے صدر میکرون اور ساتھیوں کیلئے بھی یہ ایک واضح پیغام ہے۔ اسرائیلی وزیردفاع کا مزید کہنا تھا کہ میکرون کاغذ پر فلسطینی ریاست تسلیم کریں گے، ہم زمین پر ریاست قائم کریں گے۔۔ مظلوم فلسطینی ہوں یا کشمیری یا پھرظلم کا شکار ہر ذی روح ۔۔ ظلم تو پھر ظلم ہوتاہے ظلم کی ہرشکل کے خلاف جدوجہد فرض ہے لیکن وہ لوگ کتنے بے حس ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے بچوں کی معصوم مسکراہٹیں آہوں اور سسکیوں میں بدل جائیں تو ان کے چہرے کا رنگ بھی نہ بدلے ان سے تو وہ پتھر ہی اچھے ہیں
جو حالات کی تاب نہ لاکر گول ہوجاتے ہیں، غزہ میں تباہ حال شکستہ عمارتوں کے ملبے تلے دبی ہزاروں ننھی لاشیں اسرائیلی جارحیت پر عالمی بے حسی پر نوحہ کناں ہیں غزہ کی فضائیں اْن بچوں کی سسکیوں سے بوجھل ہیں یقیناصیہونی جارحیت کا شکار50000 شہید فلسطینی بچے ایک ایسا المیہ ہے جو انسانی تاریخ کا سیاہ ترین باب کہلاتاہے تاریخ یہ سب کچھ درد اپنے سینے پر برداشت کررہی ہے جب تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی تو ان ظالم یہودیوںکو دنیا بھر میں کہیں بھی جائے پناہ نہیں ملے گی۔