221

تحریک تکمیل رٹھوعہ ہریام پل اور عوامی ردعمل!

تحریک تکمیل رٹھوعہ ہریام پل اور عوامی ردعمل!

تحریر؛ محمد کاشف اکبر

معاشرہ خواہ ترقی یافتہ ہو یا ترقی پذیر اپنا حق لینے کے لیے جدوجہد کرنی ہی پڑتی ہے البتہ یہ ایک الگ بات ہے کہ ترقی یافتہ معاشروں میں حکمران صرف حکم چلانے والے نہیں بلکہ خادم اور لوگ باشعور اور باوقار ہوتے ہیں جبکہ ترقی پذیر ملکوں میں جہاں معاشی و اقتصادی ترقی کی ضرورت ہوتی ہے وہاں ذہنی پختگی اور شعوری و فکری ترقی کی بھی اتنی ہی ضرورت و اہمیت ہوتی ہے بدقسمتی سے ہم اس ملک و خطے سے تعلق رکھتے ہیں

جہاں معاشی ترقی کی ناصرف ضرورت ہے بلکہ ذہنی اور شعوری ترقی کی بھی اشد ترین ضرورت ہے بلکہ یہ کہنا بےجا نہ ہو گا کہ ذہنی و شعوری ترقی ہی معاشی،معاشرتی اور اقتصادی ترقی کی ضامن ہوتی ہے مہذّب دنیا میں 20 سال کے عرصہ کو ایک نسل سے تشبیہ دی جاتی ہے جس کی بہتر تربیت کر کے پورے معاشرے کو بدلا جاسکتا ہے

دوسرے معنوں میں اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ 20 سالوں میں ایک پسماندہ ترین ملک بھی اگر اپنی پوری قوم میں شعور کی شمع اجاگر کر لے تو وہ 20 سالوں میں پسماندہ ملک سے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو سکتا ہے گوکہ اس کے محرکات اور مسائل یہ ایک طویل موضوع ہے

جس پر راقم آئندہ اپنے مضمون میں قارئین کی توجہ مبذول کروائے گا البتہ آج کا موضوع گزشتہ تقریباً 20 سال سے زیر تعمیر رٹھوعہ ہریام پل ہے قارئین! ہم ایسے اہل حکمرانوں اور قابل آفیسران بالا کی سرپرستی میں سانسیں لے رہے ہیں جہاں گزشتہ تقریباََ 20 سال سے محض 3 کلو میٹر رٹھوعہ ہریام پل جسے حضرت میراں شاہ غازی بریج بھی کہا جاتا ہے زیر تعمیر ہے مزکورہ پل بنانے کا منصوبہ آزادکشمیر پی پی کی 1997-2001ء کی حکومت میں بنایا گیا جس پر عملی کام 2001ء میں صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوا جو اندر 2 سال کی مدت میں مکمل ہونا تھا

جسے بعد ازیں منگلا ڈیم اپ ریزنگ منصوبے کے باعث اس کی لاگت میں اضافہ کیا گیا اور یہ منگلا ڈیم کے توسیع منصوبے کے ساتھ ہی اسے مکمل ہونا تھا۔ 2005ء میں جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں شروع ہوا اس کی ابتدائی لاگت 1395 ملین روپے تھی اور اسے 4 سال میں مکمل ہونا تھا مگر بدقسمتی سے سابق صدر پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور حکومت میں شروع ہونے والا یہ منصوبہ سید یوسف رضا گیلانی

، راجہ پرویز اشرف، میاں محمد نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، عمران خان اور اب وزیراعظم شہباز شریف کے دور سے گزر رہا ہے۔اگراس عرصہ کے دوران آزادکشمیر کی حکومتوں کی بات کی جائے تو رٹھوعہ ہریام پل کو سردار سکندر حیات خان، سردار عتیق احمد خان، راجہ فاروق حیدر خان، سردار یعقوب خان، سردار عتیق احمدخان،چوھدری عبدالمجید، راجہ فاروق حیدر، عبدالقیوم نیازی اور اب وزیراعظم آزادکشمیر سردار تنویر الیاس جیسے جید وزرائے اعظم کا ہم عصر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوچکا ہے۔

اس تقریباً 20 سالہ دور میں 2006ء میں صدر جنرل پرویز مشرف اور 2012 میں دوبارہ سید یوسف رضا گیلانی نے افتتاح کیا جبکہ درجنوں وزیراعظموں اور وفاقی وزیروں سمیت کشمیری مسند اقتدار کے مزے لینے والوں نے اس کی تکمیل کا چورن بیچا اور ایک طرف عوام کو بےوقوف بنایا تو دوسری طرف اپنی واہ واہ کرنے سمیت اقتدار کو دوام بخشتے ہوئے ووٹ سمیٹے مگر قارئین 1395ملین روپے سے شروع ہونے والا 3 کلو میٹر لمبے پل کا منصوبہ جو 23 اگست 2006ء کو منظور ہوا پاکستان و کشمیر کی کرپشن کا شہکار بنتے ہوئے

کئی بار کام تعطل اور ڈیزائن تبدیل کا شکار ہوا اور کئی بار یہ ریوائز کر کے اس کے بجٹ میں اضافہ کیا گیا 2017ء میں وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے دروان اس وقت کے پلاننگ و ڈویلپمنٹ کے وزیر احسن اقبال کی ہدایت پر ایکنک نے 6.4 کے اخراجات کی ریوایزنگ کی منظوری دی پی سی ون کے مطابق منصوبہ جون 2018ء کو مکمل ہونا تھا جو جون 2022ءکے گزرنے پر بھی تاحال سابق صورتحال میں بدستور قائم ہے پل کی ایک طرف کی اپروچ سڑک تقریباً 100 فیصد جبکہ دوسری طرف کا کام تقریباً 95 فیصد مکمل ہے

جو مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے بدستور زبوحالی کا شکار ہو رہا ہے بارشوں اورمنگلا ڈیم پانی کے ٹکراؤ کی بدولت مٹی کے تودے ڈیم برد ہونے کی وجہ سے سڑک پر کئی کئی فٹ گہرے شگاف پڑتے جا رہے ہیں اور یہ پچانوے فیصد مکمل کام بدستور تیزی سے تنزلی کا شکار ہے جبکہ پل کا کام تقریباً 85 فیصد مکمل ہے اتنے بڑے عوامی فلاحی منصوبے کا یوں تباہ ہونے اور عوام کے ٹیکسوں کی رقم کا یوں ضائع جانے اور متاثرین منگلا ڈیم سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کے لیے کئی بار تحریکیں چلائی گئیں

اور متعدد سماجی رہنماؤں،قلم کاروں سمیت سوشل ایکٹویسٹ حضرات نے آواز بلند کی۔ چونکہ عام عوامی رائے یہ ہے کہ بیوروکریسی کرپشن کی وجہ سے اس کی تکمیل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے اس لیے سوشل ایکٹویسٹ اور صحافیوں کی حیثیت ان کے سامنے بونوں کی سی ثابت ہوئی۔ البتہ عوامی طاقت سے سب سے بہتر اور مؤثر تحریک چنار پریس کلب اسلام گڑھ نے فروری 2019ء میں چلائی جس میں ایک بھرپور عوامی احتجاج بھی کیا گیا مگر پھر کورونا اور واپڈا سمیت حکومتی احکام سے مزاکرات کے بعد احتجاجی تحریک ملتوی کر دی گئی

گو کہ تحریک تو دوبارہ شروع نہ کی جا سکی البتہ قلم کاروں اور سوشل ایکٹویسٹ حضرات نے قلمی جہاد جاری رکھا تحریک تکمیل رٹھوعہ ہریام پل نے ایک بار پھر رواں سال اس وقت زور پکڑا جب متعدد نامور شخصیات نے سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آزادکشمیر اعظم خان کی سربراہی میں رٹھوعہ ہریام پل کی عدم تکمیل پر وزیراعظم پاکستان سمیت آرمی چیف قمر جاوید باجوہ، کورکمانڈر منگلا،جی او سی مری،منسٹر کشمیر آفیئرز،وزیر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ احسن اقبال،صدر و وزیراعظم آزادکشمیر،چیف سیکرٹری،

چیف جسٹس سپریم و ہائی کورٹ و دیگر اداروں کے سربراہان کو خط لکھے جس میں پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے دو مرتبہ قربانی دینے والے متاثرین منگلا ڈیم کی طرف سے رٹھوعہ ہریام پل کی عدم تکمیل پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور اپیل کی گئی کہ رٹھوعہ ہریام پل کی تکمیل کے لیے ہرممکن اقدامات اٹھائے جائیں

تاکہ لوگوں کو سفری سہولیات کی آسانی سمیت ٹورازم کی بہتری اور قومی اثاثے کی تکمیل سے قوم کے پیسے کو ضائع ہونے سے بچایا جائے خطوط لکھنے والوں میں چیف جسٹس ریٹائرڈ اعظم خان،جسٹس (ر)منیر احمد چوہدری،جسٹس(ر)جہانداد خان،جسٹس(ر)محمد اشرف،سابق سینئر وزیر ملک محمد نواز،انجینئرسجاد حسین،سابق وائس چانسلر کوٹلی یونیورسٹی ڈاکٹر غلام غوث، سابق وائس چانسلر میرپور یونیورسٹی

ڈاکٹر حبیب الرحمان،سابق ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر محمد اشرف،انجینئر محمد اقبال رتیال،سابق پاکستانی سفیر محمد عارف کمال،صدر ڈسٹرکٹ بار میرپور راجی امتیاز حسین ایڈووکیٹ،صدر ڈسٹرکٹ بار کوٹلی راجہ مسعود خان، محمد نذیر انقلابی،چوہدری محمد عارف،سابق پریس سیکرٹری ٹو پی ایم ظفر مغل،صدر چنار پریس کلب اسلام گڑھ چوہدری امجد علی اور سابق صدر چنار پریس کلب راجہ عرفان صادق شامل ہیں۔ جب سے مندرجہ بالا شخصیات کی سرپرستی میں ڈسٹرکٹ بار میرپور کے صدر راجہ امتیاز حسین راجہ نے

اس تحریک کو ایک بار پھر پھرپور اور منظم طریقے سے چلانے کی ٹھانی اور پل کی تکمیل کے لیے آخری حد تک جانے کا فیصلہ کیا تب سے اس رٹھوعہ ہریام پل کی تحریک میں گویا نئی روح پھونکی دی گئی ہےاور اس تحریک کو پورے ڈویژن میرپور تک پھیلانے کے لیے پریس کانفرنسیں شروع کی گئی ہیں تاکہ عوام کو اہم مسئلہ پر آگاہی دی جائے اور انھیں شامل تحریک کر کے ایک مضبوط و مؤثر آواز بلند کی

تاکہ رٹھوعہ ہریام پل کی تکمیل ہو سکے اس ضمن میں ڈڈیال،کوٹلی اور چکسواری میں مضبوط و موؤثر پریس کانفرنسوں کا انعقاد ہو چکا ہے جبکہ آئندہ دنوں میں سہنسہ بار اور اسلام گڑھ میں بھی پریس کانفرنسیں کی جائیں گی تاکہ لوگوں کو اس تحریک کی اہمیت و ضرورت کا اندازہ ہو سکے اور عوام کی طاقت کے ساتھ مل کر حکومتوں اور متعلقہ اداروں کو مجبور کیا جائے کہ وہ حضرت میراں شاہ غازی بریج کی تکمیل کی

راہ میں موجود رکاوٹوں کو ہٹائیں اور جلد از جلد تعمیر مکمل کریں۔قارئین ابتدائی تمہید میں جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ لوگ خواہ وہ کہیں بھی رہتے ہوں اپنا حق لینے کے لیے عدل و انصاف سمیت اقتدار کے ایوانوں کے دروازوں پر دستک دینی پڑتی ہے اور اپنی آواز بھی بلند کرنی پڑتی ہے گو کہ مہذب قوموں میں ایسی دستکوں پر فوری سائل کی داد رسی کی جاتی ہے مگر ہمارے ترقی پذیر معاشروں میں ایسا ہونا مشکل ہے

اس کے لیے اکثر عوام کو سڑکوں پر آنا پڑتا ہے اور اپنا حق چھیننا پڑتا ہے جو اسلام گڑھ و میرپور کی عوام کے لیے خاصہ مشکل کام ہے یہی وجہ ہے کہ متاثرین منگلا ڈیم کے مسائل جوں کے توں ہیں خواہ وہ مسئلہ ذیلی کنبہ جات کی صورت میں ہو، نیوسیٹز کی زبوحالی ہو، عمارتوں کی ناگفتہ بہ صورتحال ہو،اداروں میں سرکاری عملے کی کمی ہو یا 20 سال سے التواء کا شکار رٹھوعہ ہریام پل ہو۔ البتہ یہ بات پورے وثوق سے راقم الحروف کہہ سکتا ہے

کہ اب کی بار اگر عوام نے رٹھوعہ ہریام پل کی تحریک چلانے والوں کی آواز پر لبیک کہا تو خواہ وہ منہ زور ادارہ واپڈا ہو یا پل کی تکمیل میں بڑی رکاوٹ بیوروکریسی ہو۔ پل کی تکمیل کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ اور اگر ڈویژن میرپور اور بالخصوص ڈڈیال چکسواری اسلام گڑھ میرپور کی عوام نے اب کی بار بھی پہلے کی طرح عوامی حقوق کے لیے بلند ہوتی ہوئی آوازوں کو مفاد پرستی اور لاتعلقی کی نظر سے دیکھا تو اس رٹھوعہ ہریام پل کے منصوبے کا شمار بھی دنیا کے ان منصوبوں میں ہوگا جن کو حکومتوں نے غیر ضروری سمجھ کر ادھورا چھوڑ دیا اور اپنی ترجیحات بدل لیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں