3

سمے کا دھارا ،، بدلتا ہوا شاعر

سمے کا دھارا ، بدلتا ہوا شاعر

تحریر : ارشد محمود ارشد

دبستانِ سرگودھا کو سلطنتِ ادب کا ایک خاص قلعہ کہا جاتا ہے۔ یہاں کے شعراء و ادباء کے کلام و تصانیف میں منفرد خیال ، شعور و آگہی کا جداگانہ رنگ اور اسلوب کا ذائقہ رس بھرا ہوتا ہے اس دھرتی کے خمیر سے وفا و خلوص کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ اسی لیے یہاں کے باسیوں میں خلوص و وفا پنپتی ہے ان کی سوچ و فکر میں خالص جذبوں مہک پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ دبستانِ سرگودھا سے جڑے ہر لکھاری کی تحریر اپنے منفرد اسلوب ، رنگ و ذائقہ کی بدولت الگ سے پہچانی جاتی ہے ۔
جناب یوسف خالد عصرِ حاضر میں دبستانِ سرگودھا کا ایک معتبر حوالہ ہیں۔ ان کا ادبی سفر تقریباً چار دہائیوں پر محیط ہےانہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ ڈاکٹر وزیر آغا کی شامِ دوستاں کے فعال رکن رہے اور ڈاکٹر وزیر آغا کی شمع آگہی سے شعور کی کرنیں کشید کرنے کا موقع ملا۔
جناب یوسف خالد کے قلم کی نوک نے سب سے پہلے ،، زرد موسم کا عذاب ،، (۱۹۹۱ ) محسوس کیا ۔ وقت کا پہیہ گھومتا رہا

اور (۲۰۰۹ ) میں انہیں یہ کہنا پڑا کہ ،، ابھی آنکھیں سلامت ہیں ،، ۔ جب موسم کی حدت و شدت نے اطراف کی فضا کو اپنی پنجوں میں دبوچ لیا اور سانس لینا محال محسوس ہونے لگا تو جناب یوسف خالد کا قلم چیخ اٹھا ،، ہوا کو بات کرنے دیں ،، (۲۰۱۲) ۔ اور یوں ہوا کی سرگوشی سانسوں کی بحالی میں معاون ثابت ہوئی اور آنکھوں نے ( ۲۰۱۵ ) میں ،، خواب سفر کا راستہ ،، چن لیا۔ صاحب جب خواب ادھورے رہ جائیں

تو عذابِ جاں بن جاتے ہیں اور انسان ہر پل اسی تگ و دو میں لگا رہتا ہے کہ ،، اسے تصویر کرنا ہے ،، ( ۲۰۱۷) ۔ جب اسے تصویر کر لیا تو ،، قوسِ خیال ،، ( ۲۰۲۰) پر کئی بہاریں اترنے لگتی ہیں۔ وجدان کے انگن میں نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں اور خوش رنگ پھول مہکنے لگتے ہیں اور جناب یوسف خالد کا قلم دھیمے سروں میں گنگنانے لگتا ہے کہ ،، رنگ خوشبو مرا حوالہ ہیں،، (۲۰۲۱) ۔ رنگ، خوشبو ، پھول ،

کلیاں محبت کی علامت ہیں اور بلاشبہ جناب یوسف خالد کا دل محبت کی فراوانی سے لبریز ہے وہ اپنے ارد گرد بھی پیار ، محبت ، امن و سکون کو رقصاں دیکھنے کے تمنائی ہیں۔ لیکن جب ملکِ خداداد میں ہر طرف افراتفری ، بےسکونی ، لاقانونیت اور مفاد پرستی کا ننگا ناچ دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھیں دھندلانے لگتی ہیں اور ان کے دل سے ہوک اٹھتی ہے کہ کاش ،، سمے کا دھارا ،، ( ۲۰۲۲) بدل جائے۔
،، سمے کا دھارا ،، جناب یوسف خالد کا آٹھواں شعری پڑاؤ ہے جو ان کی زندگی کے تجربات ، مشاہدات و نظریات کا عکاس ہے۔ یوں تو جناب یوسف خالد نے اردو اور پنجابی زبان میں بےشمار اشعار کہے لیکن ان کی نثری نظموں کی اس کتاب میں فکر و شعور کی ایک الگ ہی کہکشاں بنتی دکھائی دیتی ہے۔ نثری نظم کو جو چاشنی جناب یوسف خالد کے قلم نے عطا کی اس کا ذائقہ مدتوں محسوس ہوتا رہے گا۔

ان کی نثری نظموں کے پسِ منظر میں کہانی جھانکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اور کہانی بھی ایسی کہ جس میں ایسی لوری ہو جو ماں اپنے نونہالوں کو سنائے اور جسے سنتے سنتے وہ میٹھی نیند کی آغوش میں پریوں سے ہمکلام ہونے لگیں۔جناب یوسف خالد کی ایک نظم ،، امکانات ،،دیکھئیےتاریکی چھٹ چکی ہےپوہ پھٹے کا سماں ہےکھیتوں میں کسان ہل چلا رہا ہے
اس کے ننگے پاؤں بھربھری آلود مٹی کے لمس کو محسوس کر رہے ہیں اور اس کی روح مٹی سے اٹھنے والی مسحورکن خوشبو سے سرشار ہے
سورج نکلنے میں ابھی کچھ وقت باقی ہےبیلوں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں سے نکلنے والی مدھر آوازیں دور تک سنائی دے رہی ہیں ہل زمین کا سینہ چیرتا چلا جاتا ہےہل کے پیچھے پیچھے پرندے
زرخیز زمین کے پھٹے ہوئے بدن کی درزوں سے اپنا رزق سمیٹنے میں لگے ہیں ایک پورا جہان کسان کی آنکھوں میں سمٹ آیا ہے
ان گنت خواب پلکوں پر آ کر دستک دینے لگے ہیں
بوڑھی آنکھوں میں فصلوں کا شباب اور خوشنما خوشوں کی تصویریں جھلملانے لگی ہیں ادھر کچے مکانوں میں زندگی ادھوری خواہشوں کی تکمیل کے راستے تلاش کر رہی ہےایک بےقراری ہے ایک انتظار ہے کہ کب فصل تیار ہوگی اور کب خواہشوں کی ہتھیلی پر مہندی لگے گی
گزشتہ سال بھی یہ خالی ہاتھ مہندی کا انتظار کرتے رہے
اور سیلاب سب کچھ اپنے ساتھ بہا کر لے گیا زندگی ایک بار پھر خدشات میں گھری اپنی سانسیں گن رہی ہے اور رنگوں کی تلاش میں ہےبےشک ایک سچے تخلیق کار کو آزاد خیال ہونا چاہئیے اس کے کلام میں اختصار ، جامعیت ، غنائت ، تاثیریت ، وسعتِ اداراک ، اور شعری جمالیات کے لوازمات ہونے چاہئیں۔ جناب یوسف خالد کی شاعری ان تمام لوازمات سے مالا مال ہے ان کی سوچ کا کینوس بہت وسیع ہے وہ اپنے جذبات و احساسات کے رنگوں سے نظموں کے ایسے ایسے شاہکار تخلیق کرتے ہیں کہ ان کا قاری ورطہ حیرت میں گم ہو جاتا ہے ۔
لیکن اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ نام نہاد نظم نگاروں نے جدت کے نام پر ایسی آزادی دکھائی ہے کہ الاماں ۔۔ جناب یوسف خالد نے ایسے آزاد خیال شعراء پر ہلکا سا طنز بھی کی ہے یوں ایک ہی نظم میں تخلیقی شعری کاوش کی تحسین بھی ہے اور غیر تخلیقی و غیر معقول شعری رویے کا رد بھی ۔۔۔۔
حوالے کے لیے ان کی نظم ہم آزاد ہیں دیکھئے ۔۔

ہم نظم نگار ہیں
ہم نے بڑی تگ و دو کے بعد آزادی حاصل کی ہے
اب ہمیں اس آزادی کو مستحکم کرنا ہے
کوئی نقاد ہمارا راستہ نہ روکے
کوئی ہماری پیش قدمی نہ روکے
ہم نظم نگار ہیں
اسی نظم میں غیر تخلیقی رنگ دیکھیں جسے نام نہاد نظم نگاروں نے اختیار کیا ہوا ہے یہ طنز کا منفرد انداز ہے

ہم نظم لکھیں گے
چوہے کے پیچھے دوڑ دوڑ کر بلی ہانپ چکی ہے
چھپکلی دیوار سے چمٹی بلی کا تماشہ دیکھ رہی ہے
بلی نظم ہے
اس کی بھاگ دوڑ نظم ہے
چھپکلی بھی نظم ہے
ان کے اپنے دکھ ہیں
ہم یہ دکھ بیان کریں گے چاہے نظم کتنی طویل ، بد مزہ اور بد ہیت ہو جائے

جناب یوسف خالد کی نظموں میں زندگی چہچہاتی ہےجذبات و احساسات کے رنگ قوسِ قزح بناتے ہیں وہ اپنے قاری کی متفکر حیات کو چند لمحوں کے لیے ہی سہی دنیاوی بکھیڑوں سے آزاد کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ ان کی ایک خوبصورت نظم ،، بے چہرگی ،، سے کچھ اقتباس دیکھئے

خامشی بےچہرگی اوڑھے
ایک فاصلے پر کھڑی مجھے دیکھ رہی ہے
میں کہ رنگوں ، خوشبوؤں اور آوازؤں کی تجسیم کرنے میں مگن ہوں
میرے تصور کے کینوس پر
ایک ایسی بستی کے نقوش ابھرنا شروع ہوئے ہیں
جہاں زندگی اپنے پورے تیقن کے ساتھ
بستی کے مکینوں میں راحتیں اور خواب تقسیم کرنے میں مصروف ہے
صبح کی پہلی کرنیں پھولوں پر پڑی شبنم کی بوندوں میں قوسِ قزح کے رنگ انڈیل رہی ہیں
لچکتی شاخ پر ننھی چڑیاں
پورے ماحول میں مترنم آوازوں کے سر بکھیر رہی ہیں
گہری نیند کا حصار ٹوٹ رہا ہے

جناب یوسف خالد کی شاعری کا مرکز خواب اور امید پے وہ خواب دیکھتےہیں اور ان کی تعبیر میں نا امید نہیں ہوتے ۔ اور نہ اپنے قاری کو نا امید ہونے دیتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ناکامی کامیابی کا پہلا زینہ ہے ہر رات کے بطن سے اجالا جنم لیتا ہے دکھ خوشی کا پیش خیمہ ہوتے ہیں اور ہار کے بعد ہی جیت کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔ وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ سمے کا دھارا کبھی نہیں رکتا اس لیے امید کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہئے قافلہ چلتا رہے تو منزل مل ہی جاتی ہے۔ ان کی ایک خوبصورت نظم ،، سمے کا دھارا ،، دیکھئے

صبح کاذب اور صبح صادق کی سرحد پر
سمے کا ایک مختصر دھارا پہرے داری کرتا ہے
جہاں تاریکی اور اجالا بغل گیر ہوتے ہیں
اس مختصر سے پل میں کئی گہرے بھید ہیں
رات اپنے کچھ مکمل کچھ نامکمل خوابوں کی پوٹلی سرحد پر رکھ کر واپس جا چکی ہوتی ہے
میں اکثر
چمگادڑوں کو اس ملگجی ماحول میں پاگلوں کی طرح ادھر ادھر چکر لگاتے دیکھتا ہوں
ان کی اڑان میں عجیب طرح کا ہیجان ہوتا ہے
خدا معلوم کیا تلاش کرتی ہیں
ان کا رقص جب مکمل ہوتا ہے
تو جانے سے پہلے
یہ پاگل جتھہ خوشنما پرندوں اور ننھی چڑیوں کو
صبح کے دلفریب ماحول میں پھیلی رعنائیوں سے لطف اٹھانے کی اجازت دان کرتا ہے
بادِ صبا چہکار اور مہکار سے بھری صبح کے اس پرکیف منظر سے
زندگی کے لیے نئے امکانات کی زنبیل تیار کرتی ہے
اور گلیوں بازاروں میں
بند دروازوں پہ دستک دیتی مسکراہٹیں تقسیم کرتی گزر جاتی ہے
میری حیرت کا در کھلا رہتا ہے
میں ایک طویل دن کی پگڈنڈیوں پر
بے تکان چلتے رہنے کے لیے کمر بستہ ہوتا ہوں
اور ایک نئی صبح کا انتظار کرتا ہوں

میں جناب یوسف خالد کو ان کے تازہ شعری مجموعہ کی اشاعت پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد دیتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ ان کا یہ ادبی سفر اسی طرح جاری و ساری رہے ۔ تاکہ تشنگانِ ادب سیراب ہوتے رہیں۔

دعاگو :
ارشد محمود ارشد

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں