سیاسی و طاقتور قوتوں کے درمیان نئے دور کا آغاز معاہدے کے تحت ہونا چاہے 230

جوش وجذبے سے یہ دن منانا توقابل ستائش ہے لیکن اس سے سبق بھی حاصل کرناچاہیۓ

جوش وجذبے سے یہ دن منانا توقابل ستائش ہے لیکن اس سے سبق بھی حاصل کرناچاہیۓ

آج کی بات۔شاہ باباحبیب عارف کیساتھ

ملک بھر میں ماہ ربیع الاول کے بابرکت مہینے کے مناسبت سے سیرت النبی ﷺ کانفرنس منعقد کیئے گئے بلکہ اس مرتبہ توسرکاری طور پربھی نہایت ہی جوش وجذبے کیساتھ منایاگیا اللہ کرے کہ یہ جوش و جذبہ تاقیامت برقرار رہے کیونکہ یہ عظیم اور مبارک دن سال بعد آتا ہے اور سال کے تین سو پینسٹھ دن ہوتے اللہ تعالٰی نےنبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو رحمت بناکر بھیجا اور انہی کی پیروی کرتے ہوۓ ہمیں دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل ہوگی۔نبی پاکﷺ نے ہمیشہ انسانیت کی بات کی ہے

اور آج اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ انسانیت سے حسن و سلوک اور محبت کی جائے ہمیں روزمرہ کے امور سیرت النبی ﷺ کے روشنی میں سرانجام دینے چاہیے اور لوگوں کی مشکلات آسان کرنے میں ہمیں اپنے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے لہذاء ہمیں آج یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم سال کے تین سوپینسٹھ دن اسی جوش وجذبے کوبرقرار رکھے کیونکہ ہم دن تو بڑے جوش وجذبے سے مناتے ہیں لیکن ان سے سبق حاصل کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتےاگر ہمارے مسلم حکمران سیاسی و مذہبی رہنماءاور دانشور سنجیدگی سے دنیا میں جاری فتنوں کا بغور جائزہ لے کر ان سے عوام کو آگاہ کریں

کہ ہمارا ایک ہی نعرہ ہونا چاہیئے کہ ”مسلم اُمہ کا اتحاد، صلح اور تفرقہ سے پرہیز“ مسلم امہ کے درمیان اتحاد کے لیے ابھی درد دل رکھنے والے مذہبی اور مُسلم رہنما کوششیں کررہے ہیں لیکن ناکامی یہ ہے کہ ہم آپس میں ٹکرے ہوۓ ہیں اورایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں اگر ہماری فوکس صرف اس ایک نقطے پر جم گیا کہ ہم ایک اللہ کے بندے ایک نبی محمدﷺ کے اُمتی اورایک قرآن پرایمان اوریقین رکھتے ہیں تو پھرآپس میں ہہ جھگڑا کس بات کا۔۔۔۔؟ بس کوئی اختلاف کی بات اپنی زبان سے نہ کہی جائے

اور قلم کی حرمت کا خیال رکھا جائے اتحاد امت مسلمہ کا مشترکہ ہدف ہوناچاہیئے اور یہ آج کا دور ہم سے اس کا تقاضہ کرتا ہے۔ جب داعش کا فتنہ سامنے آیا تو بہت سے لوگ اس کو سمجھ ہی نہیں سکے، لیکن ہمارے مسلم رہنماوں نے, شروع سے کہاتھا کہ داعش کے اقدامات کے پیچھے صیہونی سوچ کار فرما ہے، کوئی مسلمان اس طرح سے خون خرابہ اور قتل عام نہیں کرسکتا آج سب کو پتہ چل گیا ہے کہ مسلم امہ دہشتگرد نہیں بلکہ یہ داعش کی ڈوریاں ہیں جوامریکہ اور صیہونیوں کے ہاتھ میں ہیں ہم کل تک اس فتنے کو عراق اور شام میں دیکھ رہے تھے اور آج لبنان اور افغانستان میں اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں

اس فتنے کو سمجھنا انتہائی اہم ہے اور اگر علمائے کرام اس فتنے سے لوگوں کو آگاہ کریں تو امت کے نوجوانوں کو اس سے بچایا جاسکتا ہے۔ہمارے علماء کرام اور دانشوروں کو چاہیئے کہ وہ مسلم اُمہ میں پیدا کیے جانے والے انحرافات کا بغور جائزہ لیں اور قوم کو بروقت آگاہ کریں تاکہ امت مسلمہ ان سازشوں اور فتنوں سے محفوظ رہے آج ہم اہنے محبوب اورغمخوار پغمبرمحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میلاد کاعید بڑے جوش وخروش سے منارے ہیں لیکن افسوس ہے کہ آج ہم عالم اسلام میں جنگ، جھڑپوں اور خون خرابے کا مشاہدہ کریں تو اسی صورتحال کے تناظر میں عالم اسلام کوچاہیئے کہ وہ تفرقےاور تنازعات سے گریز کرے کیونکہ عالمی سامراج شروع ہی سے کوشش کرتا آیا ہے کہ خطے میں جنگ اور خون خرابہ کرا کے، اپنی موجودگی کا جواز پیش کرے اور اسلامی ملکوں کے وسائل کو لوٹنے کا سلسلہ جاری رکھے۔اگر ہم زمینی حقائق کومدنظر رکھتے ہوئے

اس وقت اسلامی دنیا کی مشکلات اور تنازعات کا جائزہ لیں تو بکے ہوئے علما، بعض ملکوں میں اسلامی جمہوریت کے فقدان اور نسلی، لسانی نیز فرقہ وارانہ تعصبات، متخاصم گروہوں کی موجودگی اور ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانیاں وغیرہ اس کی اہم وجوہات ہیں اور اس گورگھ دہندے میں ہمارے کچھ مسلم رہنماء اور دانشور بھی شامل ہیں جہنوں نے اپنا ایمان غیروں کے ہاتھوں بیچ ڈالا ہے نائن الیون کا رچایا ہوا شکست خوردہ ڈرامہ جس نے مسلمانوں کے خون سے اپنی ناکامی کاتاریخ رقم کیا لیکن آج دنیا جان چکی ہے کہ اسلام امن اور محبت کادرس دیتا ہے دہشتگردی کانہیں مسلم اُمہ کی بے گنایی ثابت ہوچکی

جس کی مثال آفغانستان نے ہیش کی اور اس بے گناہی کاثبوت یہ ہے کہ صیہونی فوج کی مقبوضہ فلسطین کے شمالی حصہ میں واقع ایک چھاونی میں آپس میں جھڑپ ہوگئی جس میں آٹھ فوجی زخمی ہوئے ہیں اور یہ خبرصیہونی ٹی وی چینل کان کے مطابق، منگل کے روز ہوئی اس جھڑپ کی تحقیقات بھی شروع ہوگئی ہیں اور سب سے حیران کن خبریہ بھی ہے کہ صیہونی فوج میں لازمی سروس سے فرار کرنے والے فوجیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔قابل ذکر ہے کہ پچھلے سال صیہونی فوج کی چھاونی میں اسی طرح کی جھڑپ ہوا تھا جس میں ایکس افراد زخمی ہوئے تھے یہ ہے مکافت عمل تو ہمیں اب سوچنا ہوگا اس راستے پر چلنے کے لیے جس کا حکم اللہ نے ہمارے آخری نبی محمدﷺ کودیا ۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں