زندگی کی ڈور 320

زندگی کی ڈور

زندگی کی ڈور

نعمان حیدرحامی
شام کا وقت تھا ہر طرف اندھرا چھا رہا تھا۔ حمزہ، زاہرہ اور اس کی امی نمازِ مغرب ادا کرنے کے بعد آپس میں گفت و شنید میں مصروف ہو گئے۔ گفتگو کے دوران امی نے کہا ” بیٹا!! ہمارا پڑوسی بچارا قاسم تین بیوی بچوں کو چھوڑ کر اپنا سفر آخرت کر گیا، ہائے بیٹا حمزہ، بیٹی زاہرہ زندگی کی ڈور جو اللہ پاک کے ہاتھ میں ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا کے آ گے انسان بے بس ہے ”۔حمزہ نے امی سے سوال کیا ” امی جان! یہ زندگی کی ڈور کیا ہوتی ہے؟؟ ”ذاہرہ کہنے لگی اماں جان میرا بھی ایک سوال ہے۔’ جی جی بیٹا کہو ” اماں جان نے کہا۔ زندگی کی ڈور آخر اللہ پاک کے ہاتھ میں ہی کیوں ہے ” ذاہرہ نے کہا۔اماں جان تھوڑی دیر خاموش رہی اور پھر کہنے لگی ” بیٹا!! میں آپ کو ایک ایسی کہانی سناتی ہوں، جس میں آپ دونوں کے سوالوں کے جوابات چھپے ہوئے ہیں ”۔حمزہ اور ذہراہ خوش ہو گئے۔اماں جان نے کہا ایک لڑکا جس کا نام طارق تھا، وہ اور اسکی مما چھوٹی سی جھونپڑی میں رہتے تھے۔

ان کے حالات ناساز تھے۔ انہیں ہر طرف سے غربت اور فاقوں نے گھیر رکھا تھے۔ طارق کے پاپا اس کے بچپن ہی میں ہی خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔ جب وہ پچپن کی عمر سے تھوڑا سنجیدہ عمر کی طرف بڑھا تو اسے اپنے پاپا کی شدت سے کمی محسوس ہونے لگی۔ وہ ہر وقت پاپا کے خیالوں میں گم رہتا، کبھی مما سے کہتا مما جان!! میرے بھی پاپا ہوتے تو آج مجھے بھی میری مرضی کی چیزیں لے کر دیتے، دیکھیں مما میرے دوست عصمت کے پاس کیسا خوبصورت بائیک ہے۔ اس کی مما اسے بار بار سمجھاتی کہ بیٹے زندگی کی ڈور اللہ پاک کے ہاتھوں میں ہی ہے ہم انسان کیا کر سکتے ہیں۔ آپ کے والد محترم کا انتقال کوئی میں تھوڑی روک سکتی تھی۔

بس!! اللہ کی مرضی اس کی مما رونے لگ گئی۔ اللہ سبحان و تعالیٰ کی تقدیر کے ہاتھوں انسان ہمیشہ کیلئے بے بس ہے۔ خیر دن گزرتے گئے طارق بڑا ہوتا گیا یہاں تک کہ اس کی عمر اٹھارہ سال ہو گئی۔ طارق کو مما نے گزر بسر کیلئے چند بکریاں پالنے کو رکھ دیں تا کہ گھر کا اچھا گزر بسر ہو سکے۔ وہ بکریوں کی دیکھ بھال میں مشغول رہتا سارا سارا دن بکریاں چراتا اور شام کو گھر واپس آ جاتا۔ چند سال گزرے تو اس کے پاس ایک بڑا بکریوں کا ریوڑ بن گیا۔ ایک دن ہوا یوں کہ اس نے صبح صبح ریوڑ لیا اور جنگل کی طرف نکل دیا۔ جب اس نے جنگل دیکھا تو اس میں ہری بھری گھاس تھی تو وہ ریوڑ کو جنگل میں داخل کر کے ایک درخت کی ٹیک لگ کر بیٹھ گیا۔ ہوا کے ٹھنڈے جھونکوں سے انہیں نیند آ گئی۔ دوران ِ نیند ہی اس کو ایک خواب آیا

کہ اس کو پرستان کی ایک پری اس کو ایک ہاتھ میں گیند تھما کر کہتی ہے یہ وہ گیند ہے کہ جب بھی تم پر کوئی مشکل وقت آئے تو اس میں ایک دھاگہ ہے جس کو آپ تھوڑا سا کھینچیں گے تو تم زندگی کے اس مشکل وقت سے نکل کر زندگی کے اگلے مرحلے میں چلے جاؤ گے۔ وہ یہ سب سن کر بہت خوش ہو گیا۔ طارق بہت محنتی بچہ تھا اور گھر کی ان تمام مصروفیات کے ساتھ ساتھ وہ پڑھتا بھی تھا۔ جب ان کے فرسٹ ائیر کے پیپرز شروع ہونے والے تھے تو اس سے پہلے انہوں نے تیاری نہیں کی تھی اور اسے فیل ہونے کا خطرہ لاحق ہوا تو اس نے گیند سے دھاگہ نکالا تو وہ اگلی کلاس میں چلا گیا۔ پھر جب سیکنڈ ائیر میں پہنچا تو پھر دھاگہ کھینچا تو وہ اگلی کلاس میں چلا گیا۔ پھر دھاگہ کھینچا تو اس مرحلے میں اس کو ملازمت مل گئی

، وہ خوشحال ہو گیا اور اس کی عمر بھی کافی ہو گئی تھی۔ اب وہ شادی کرنا چاہتا تھا پھر سے اس نے دھاگہ کھینچا اس کی شادی ہو گئی اللہ پاک نے اسے اولاد سے نوازا۔ اب تھک گیا اور ملازمت سے بھی سبکدوش ہونا چاہتا تھا اس نے پھر گیند سے دھاگہ کھینچا اور ملازمت سے بھی سبکدوش ہو گیا۔ اگلی بار جب اس نے دھاگہ کھینچا تو اس کی بیوی فوت ہوگئی۔ طارق یہ سب خواب میں اس طرح دیکھ رہا تھا جیسا کہ یہ سب اس کی عملی زندگی میں ہو رہا ہو۔ جب آخری بار اس نے دھاگہ کھینچا تو اسے کسی بیماری گھیر لیا تھا اور بیچارہ اکیلا چارپائی پر پڑ گیا اس کا کوئی اس کو کھانے پلانے والے تک نہ رہا۔

اس گیند کا دھاگہ بھی ختم ہو چکا تھا اب کی بار وہ دوبارہ دھاگہ کھینچنے والی امید بھی دم توڑ چکی تھی۔ اسی کی جب ڈر سے آنکھیں کھولیں تو طارق فوراً ہی سجدہ ریز ہوا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ شکر ہے اے!! اللہ پاک کہ میری زندگی اور میرے سارے معاملات کی ڈور صرف آپ کے ہاتھوں میں ہے ورنہ میں نے اپنی زندگی سے کیا کچھ کر دیا تھا۔زندگی کی ڈور سے مراد زندگی اور وقت کی ملکیت ہے۔ یعنی ہمارے زندگی اور ہمارے دنیا پر مقررہ وقت کی جو ترتیب ہے وہ اللہ پاک کے ہاتھوں میں ہے ورنہ ہم زندگی اپنی زندگی اور نصیبوں سے نجانے کیا کیا کھیل کھیلتے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں