’’عید الاضحی پر پنجاب میں صفائی کا فقدان‘‘ 206

’’عید الاضحی پر پنجاب میں صفائی کا فقدان‘‘

’’عید الاضحی پر پنجاب میں صفائی کا فقدان‘‘

تحریر: اکرم عامر سرگودھا
فون: 03008600610
وٹس ایپ: 03063241100
الیکٹرانک میڈیا عید الاضحی کے حوالے سے آج کل لاہور، کراچی اور دوسرے شہروں میں لگے گندگی کے ڈھیروں پر صفائی کرنے والے سرکاری اداروں پر خوب برس رہا ہے، اور اسے برسنا بھی چاہئے۔ دوسری طرف وزیر اعلی پنجاب اور صوبائی وزراء عید الفطر کے ایام میں لاہور، سرگودھا سمیت پنجاب کے کئی شہروں میں صفائی کے نظام کی خود نگرانی کرتے رہے، وزیر اعلی پنجاب نے لاہور میں چھاپے مارے تو سینئر صوبائی وزیر محمود الرشید نے سرگودھا میں اچانک چھاپہ مارا تو صفائی کے ناقص انتظام نے میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے

حکام و ملازمین کی کارکردگی کی قلعی کھول دی، صوبائی وزیر نے کئی سرکاری ملازمین کیخلاف کارروائی کا حکم بھی دیا، اسی طرح وزیر اعلی پنجاب نے بھی حکام کیخلاف نوٹس لیا، جبکہ کئی وزراء نے دیگر شہروں میں چھاپے مارے اور عید الاضحی کے ایام میں صفائی کے نظام کو غیر تسلی بخش قرار دیا، یہاں قابل توجہ امر یہ ہے کہ حکومت پنجاب نے عید الاضحی کے تمام اضلاع، تحصیلوں میں قربانی کے فضلہ جات کو بروقت ٹھکانے لگانے کیلئے جامعہ پلان تیار کر کے تمام اضلاع اور تحصیلوں کے افسران کو اس حوالے سے خصوصی ٹاسک دیا تھا

اور لاکھوں روپے کے فنڈز بھی مختص کیا گیا تھا تا کہ قربانی کے جانوروں کی اوجڑیاں اور دیگر فضلہ جات شہروں و دیہی علاقوں سے بروقت اٹھا کر مخصوص مقامات پر ٹھکانے لگانے کیلئے اضافہ مشینری حاصل کی جا سکے۔ کروڑوں روپے کا مختص کردہ یہ فنڈ کہاں اور کیسے خرچ ہوا اس بارے تو سردست کچھ نہیں کہا جا سکتا، تا ہم صوبہ بھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں جگہ جگہ فضلہ جات کے لگے ڈھیروں سے حکومت پنجاب کا عید الاضحی کے موقع پر صفائی کیلئے ترتیب دیا گیا ماسٹرپلان بری طرح فیل ہو چکا ہے۔ وزیر اعلی پنجاب اور صوبائی وزراء نے اس حوالے سے کئی شہروں کے افسران پر برہمی کا بھی اظہار کیا ہے۔

یہ فضلہ جات کب تک اٹھایا جائے گا اس بارے بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ اکثر شہروں میں افسران کو فنڈز تو فراہم کر دیئے گئے لیکن انہوں نے قربانی کے جانوروں کا فضلہ جات اٹھانے کیلئے کوئی قابل ذکر اقدام نہ اٹھایا اور دیگر مدات کی طرح ان فنڈز کی بھی بندر بانٹ کر لی جائے گی۔
اسلام میں صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا اور اشرف المخلوقات انسان کو ہر طرح سے ماحول کو پاک رکھنے کا کہا گیا تا کہ انسان ذہنی، جسمانی، اخلاقی، نفسیاتی طور پر خوش و خرم اور صحت مند نظر آئے۔ اسلام انسان کو پیدا ہونے سے جہان فانی سے کوچ کر جانے تک صاف ستھرا رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس میں جسم کی صفائی سے لے کر گلی،

محلہ، چوراہا، سڑکیں حتی کہ ہر وہ مقام جہاں وہ رہتا ہے کو صاف رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ انسان کیلئے اذیت کا موجب بننے والی گندگی، کانٹے، پتھر، مردہ جانور اور دیگر فضلہ جات اگر راستے میں ہوں تو انہیں ہٹا کر راستے کو پاک صاف رکھنا ایمان کی شاخ قرار دیا گیا ہے تا کہ انسان جہاں بھی رہ رہا ہو وہ مقام پاک رہے۔ اسلام کی تعلیم میں یہ بھی شامل ہے کہ شاہراہیں، راستے محفوظ اور ہموار بنائے جائیں، گلیوں، راستوں، سڑکوں پر رکاوٹ پیدا کر کے گزرنے والوں کو تنگ کرنے کے عمل کو نا پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ ہمسایوں کے

حقوق کے تحفظ کا درس دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ اپنی عمارتوں کو ہمسائے کی عمارت سے اتنا اونچا نہ کرو کہ اس کی بے پردگی ہو اور اس کے گھر کی ہوا بند ہو جائے۔ حتی کہ گھر کے چولہے کا دھواں بھی ہمسائے کو تکلیف نہ دے، درختوں کو بے جا کاٹنے، عمارتوں، فصلوں، مویشیوں، چشموں، جانوروں، پرندوں اور دیگر ایسی چیزوں جو انسان کو فائدہ پہنچا سکتی ہوں کو ضائع کرنے سے منع کیا گیا ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ کھڑے پانی میں گندگی ڈال کر اسے آلودہ نہ کرو، پانی کو صاف کر کے محفوظ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ غسل وضو اور زندگی کی دیگر آسائشوں کیلئے بھی ضرورت کے مطابق پانی استعمال کریں۔
مگر ہم مسلمان ہونے کے باوجود اکثریت اس کے برعکس کام کر رہے ہیں، ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں صفائی کا نظام ابتر ہو چکا ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا جس بابت گاہے بگاہے نشاندہی بھی کرتا رہتا ہے مگر بشمول راقم قوم کی اکثریت شہروں، گلیوں، محلوں، چوکوں، پارکوں، سیر گاہوں حتی کہ ہر مقام پر تعفن پھیلا نے کی ذمہ دار ہے، کیونکہ سگریٹ پی کر ٹوٹا، پان کھا کر تھوک ہم جہاں دیکھتے ہیں وہاں پھینک دیتے ہیں۔ گھروں، دکانوں، کارخانوں و دیگر مقامات پر پیدا ہونے والا کچرا جہاں جگہ ملے پھینک دیتے ہیں، اس طرح ہم سب معاشرے میں گندگی پھیلانے کے مرتکب ہو کر ’’مجرم‘‘ ہیں۔ جبکہ بڑے چھوٹے شہروں میں مویشی پالنے والے

حضرات بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ وہ مویشیوں کا فضلہ شہر سے باہر مختص جگہوں پر پھینکنے کی بجائے اندرون شہر چوک یا سڑک کنارے پھینک دیتے ہیں، یا پھر وہ کچرا گٹروں میں ڈال دیا جاتا ہے جس سے اکثر شہروں میں سیوریج کا نظام تباہ ہو چکا ہے اور سیوریج سے نکلنے والا پانی انہی گوالوں، ان کے عزیز و اقارب اور شہریوں کو متاثر کر رہا ہے۔ اب قربانی کے جانوروں کے فضلہ جات نے تو رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے جو شہروں کے چوک چوراہوں میں بکھرا پڑا ہے۔
یہاں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ چند سال قبل ملک میں شاپر بیگز کی تیاری اور اس کے استعمال پر حکومت کی طرف سے پابندی عائد کی گئی تھی مگر اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا اس طرح شاپر بیگ ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں بدستور آلودگی پھیلا رہا ہے۔ کچرا اٹھانے والے سڑکوں سے شاپر بیگ، پلاسٹک کا پرانا سامان بوتلیں وغیرہ اٹھا کر کباڑیوں کو فروخت کر دیتے ہیں ملک بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں استعمال شدہ کچرا جس میں پلاسٹک کی بوتلیں، سرنجز اور دیگر سامان شامل ہوتا ہے کو تلف کرنے کیلئے پلانٹ صرف 15 فیصد ہسپتالوں

میں نصب ہیں۔ جبکہ 85 فیصد چھوٹے بڑے ہسپتالوں میں ویسٹ شدہ سامان ٹھکانے لگانے کا کوئی انتظام نہیں۔ ان ہسپتالوں کا عملہ ویسٹ شدہ اشیاء جس میں طرح طرح کی ادویات کے کیمیکل ہوتے ہیں کو اکٹھا کر کے کباڑ خانوں تک پہنچاتا اور مال کماتا ہے۔ پھر اسی ویسٹ شدہ سامان کو دوبارہ استعمال میں لا کر پلاسٹک کے برتن تیار کیے جاتے ہیں اور ان پلاسٹک کے برتنوں کا ملک میں کثرت سے استعمال ہو رہا ہے۔ پلاسٹک بیگ کے استعمال سے ماحولیاتی آلودگی، آبی آلودگی اور زمینوں کو نقصان ہو رہا ہے کیونکہ جس کھیت میں شاپر بیگ ملا کچرا ڈال دیا جائے اس کی زرخیزی ختم ہو جاتی ہے۔

اسی طرح چیک اینڈ بیلنس کے فقدان سے شاہرائوں پر چلنے والی گاڑیوں بالخصوص رکشائوں، بھٹہ خشت اور چھوٹے بڑے صنعتی اداروں سے اٹھنے والا دھواں سموگ کا باعث بن کر معاشرے کو آلودہ کر کے سانس پھپھڑوں اور ٹی بی کے مریضوں میں اضافہ کررہاہے۔ جبکہ ملک بھر میں اکثر فیکٹریوں کا کیمیکل ملا پانی پائپوں کے ذریعے قریبی نہروں اور راجباہوں میں ڈال کر اسے زہر آلود کیا جا رہا ہے حکومتی پابندی کے باوجود شہروں کے قریب واقع زرعی رقبوں میں فصلیں بالخصوص سبزیاں جو کثرت سے استعمال ہوتی ہیں سیوریج کے گندے پانی سے سیراب کر کے عوام کو زہر کھلایا جا رہا ہے۔
وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار اور ان کے وزراء و لاہور میں بیٹھی بڑی بیورو کریسی نے تو پالیسی بنا کر شہروںمیں صفائی ستھرائی کیلئے انتظامات کیلئے کروڑوں روپے کے فنڈز جاری کیے، لیکن اکثر شہروں میں صفائی ستھرائی کا نظام تسلی بخش نہیں ہے جس کی وزیر اعلی پنجاب اور ان کی ٹیم کے وزراء نے تصدیق کی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن شہروں میں عید الاضحی کے ایام میں صفائی کا نظام ناقص پایا گیا ہے، کیا ان افسران کیخلاف روایتی محکمانہ کارروائی ہو گی یا واقعی تادیبی کارروائی ہو گی، جس کا وزیر اعلی پنجاب نے اعلان کیا ہے۔

یہ وہ سوال ہے جس کا جواب آنے والے وقت میں حکومت پنجاب کے ذمہ داران نے عوام کو دینا ہے کیونکہ ماضی کی حکومتوں نے بھی اسی طرح کے وعدے کیے، لیکن ان پر کوئی بھی حکومت پورا نہ اترسکی اور عید الاضحی کے ایام کے بعد چھوٹے بڑے شہر کئی کئی ماہ تک کچرا کنڈی میں تبدیل رہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعلی پنجاب کس حد تک عید الاضحی کے ایام میں صفائی ستھرائی میں سستی کاہلی کے مرتکب افراد کیخلاف کب تک قانونی کارروائی کرتے ہیں، عوام توقع کر رہے ہیں کہ اس حوالے سے ہونے والی انکوائری رپورٹ بارے انہیں (عوام کو) بھی آگاہ کیا جائے گا کیونکہ ملک کے کپتان کہتے ہیں کہ حکومتی مشینری کا ہر بڑا پرزہ عوام کے سامنے جوابدہ ہے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں