’’سینیٹ انتخابات اور سیاسی چالیں‘‘ 291

’’لانگ مارچ اپوزیشن کا کڑا امتحان‘‘

’’لانگ مارچ اپوزیشن کا کڑا امتحان‘‘

تحریر اکرم عامر سرگودھا
اپوزیشن کی جانب سے کپتان اور اس کی کابینہ کے کھلاڑیوں کو دی جانے والی ڈیڈ لائن گزر چکی ہے مگر حکومت کا کوئی مہرہ مستعفی نہیں ہوا، لیکن توجہ طلب بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ،ضمنی وسینٹ انتخابات کے بائیکاٹ،اپوزیشن جماعتوں کے ارکان اسمبلی کے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مشترکہ استعفے دینے کی طرح اسلام آباد لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان بھی مقررہ تاریخ پر نہیں کرپائے، لگتا ہے، اپوزیشن کو ضمنی وسینٹ انتخاب، اور ارکان اسمبلی کے استعفوں کی طرح لانگ مارچ کے اعلان پر بھی پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹوزرداری لانگ مارچ میں شمولیت نہ کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں،اور مریم نواز کی جانب سے بلاول کے اعلان کی حمایت کا امکان ہے کیونکہ ماضی میں بلاول بھٹوزرداری نے ضمنی اور سینٹ الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو مریم نواز کو بھی با امر مجبوری ایسا ہی کرنا پڑا

،اب مولانا فضل الرحمان بظاہر لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کرنے کیلئے اپوزیشن جماعتوں کی قیادت پرزور دے رہے ہیں مگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ضمنی انتخابات پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں، اور اگر ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کے امیدوار وں کو خاطر خواہ کامیابی مل گئی پھر تو مولانا فضل الرحمان کا اسلام آباد لانگ مارچ دیوانے کا خواب ثابت ہوگا،کیونکہ مسلم لیگ (ن) کی مریم نواز واضح کہہ چکی ہیں کہ ضمنی انتخابات میں کامیابی کی صورت میں اسلام آباد لانگ مارچ کی ضرورت نہیں؟ یہ تو ہے اپوزیشن کی اندرونی کی کہانی جو یہ بھی واضح کرتی ہے

کہ پی ڈی ایم میں شامل دو بڑی جماعتوں میں دوریاں روز بروز بڑھ رہی ہیں، اور براڈ شیٹ معاملہ میں شامل افراد میں ان دونوں جماعتوں کی قیادت نمایاں ہے جو احتساب ریفرنسز کی طرح براڈ شیٹ پر بھی عوام کو صفائیاں دے رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ ان کا براڈ شیٹ معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے مسلم لیگ ن کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی،مریم نواز شریف،پیپلزپارٹی کے بلاول بھٹوزرداری اور کئی دیگر قائدین ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کی ناکام قیادت بالخصوص کپتان اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائیاں کروا رہے ہیں، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم ان انتقامی کارروائیوں سے ڈرنے والے نہیں، حکومت کے ہر وار کاڈٹ کرمقابلہ کریں گے، اور اسے ٹف ٹائم دیں گے اور ہر صورت کپتان کی

حکومت کو گھر بھجوائیں گے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ اپوزیشن حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی بجائے خود بکھرتی نظر آرہی ہے، یہی وجہ ہے اپوزیشن کو اپنے ہر احتجاجی اعلان پر یوٹرن لینا پڑ رہا ہے، اب اسلام آباد لانگ مارچ کی ڈیڈ لائن کا وقت آچکا ہے کہ مریم نواز اور بلاول جن کی جماعتیں پی ڈی ایم کی اہم اتحادی ہیں مولانا فضل الرحمان سے دور ہوتی نظر آرہی ہیں، لیکن مولانا فضل الرحمان جن کی اپنی جماعت جمعیت علمائے اسلام میں سے جید راہنما مولانا شیرانی کی قیادت میں الگ جمعیت علمائے اسلام وجود میں آ چکی ہے، مگر مولانا فضل الرحمان اب بھی پر عزم ہیں، اور کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے پتے سوچ سمجھ کر کھیل رہے ہیں، بقول مولانا فضل الرحمان اپوزیشن ارکان اسمبلیز پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے استعفے بھی دیں گے اور لانگ مارچ بھی ہوگا؟ دوسری طرف وفاقی وزیر داخلہ پاکستان شیخ رشید احمد جن کے خیالات اپوزیشن کے

بارے ضمنی اور سینٹ انتخابات میں حصہ لینے اور ارکان اسمبلیوں کے استعفوں کے حوالے سے ثابت ہوچکے ہیں، اب شیخ رشید نے بڑا دعویٰ کیا ہے کہ اپوزیشن لانگ مارچ نہیں کرے گی،اگر اپوزیشن لانگ مارچ کرکے اسلام آباد آئے گی تو ان کا استقبال کریں گے،یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اپوزیشن لانگ مارچ کرتی ہے جس کا جانس آٹے میں نمک کے برابر ہے تو کیا ان استقبال بھی اسی طرح کیا جائے گا جس طرح اپنے حق کے لئے احتجاج کرنے والے اساتذہ،ایم ٹی آئی ایکٹ پر احتجاج کرنے والے ینگ ڈاکٹرز،اور کنٹریکٹ پر کام کرنے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز،اور دیگر احتجاجی ملازمین کا کیا گیا تھا، لگتا ہے شاید اپوزیشن ان استقبالات کو بخوبی بھانپ چکی ہے اور اسی وجہ سے لانگ مارچ کا اعلان کرنے سے پہلے تمام پہلوؤں پر سوچ بچار کررہی ہے،موجودہ حالات میں لگتا یوں ہے کہ اپوزیشن کی ہر جماعت یہ چاہتی ہے کہ قربانی دوسری جماعت کے کارکن دیں اور فائدہ ان کی جماعت اٹھائے۔
سوبات کہاں سے کہاں نکل گئی بات ہو رہی تھی اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو دی گئی 31 جنوری تک کی ڈیڈ لائن کی جو گزر چکی ہے، مگر کپتان بھی موجود ہیں ان کے کھلاڑی اور حکومت بھی ،تاہم کپتان نے اپوزیشن قائدین کو مشروط پیشکش کی ہے کہ وہ قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس قومی خزانے میں جمع کرادیں تو وہ (کپتان) فوری طور پر مستعفی ہوجائیں گے،کپتان نے یہ پیش کش کرکے گھاٹے کا سودا نہیں کیا کیوں کہ ہر برسر اقتدار آنے والی سیاسی جماعت نے ملکی خزانہ کو بے دردی سے لوٹ کر اپنی تجوریاں بھری ہیں اس بنا پر ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے ،

اور ملک کے سربراہ در در پھر کر ملک چلانے کیلئے قرضہ مانگ رہے ہیں، اگر کپتان کی مشروط شرط مان کر اپوزیشن کی قیادت اپنے زمہ رقم میں سے آدھی رقم بھی واپس کر دیتی ہیں تو نہ صرف ملک کا قرضہ اتر جائے گا بلکہ پاکستان ترقی کی نئی راہ پر گامزن ہوجائے گا، کپتان کے اس بیان پر اپوزیشن نے چپ سادھ لی ہے،دیکھنا یہ ہے کہ اب اپوزیشن کپتان کی دی گئی آفر پر عمل کرتی ہے یا پھر پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اسلام آباد لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہیں، اور حکومت آنے والے وقت میں اس لانگ مارچ کو روکنے کیلئے کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے، یہ فیصلہ آنے والا وقت کرے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں