299

ٹھٹھہ ”اکیسویں صدی میں سندھ کے کسانوں کی صورتحال “ کے عنوان سے سندھی ھاری تحریک کا واپڈا ھائڈرو پاور لیبر ھال حیدرآباد میں سیمینار منعقد

ٹھٹھہ ”اکیسویں صدی میں سندھ کے کسانوں کی صورتحال “ کے عنوان سے سندھی ھاری تحریک کا واپڈا ھائڈرو پاور لیبر ھال حیدرآباد میں سیمینار منعقد

ٹھٹھہ (امین فاروقی بیورو چیف) ​”اکیسویں صدی میں سندھ کے کسانوں کی صورتحال “ کے عنوان سے سندھی ھاری تحریک نے واپڈا ھائڈرو پاور لیبر ھال حیدرآباد میں سیمینار منعقد کیا. سیمینار میں ادیبوں، دانشوروں اور کسان رہنمائوں نیں بڑے تعداد میں شرکت کی. زرعی اصلاحات لاکے کسانوں پر ظلم و جبر ختم کیا جائے.  بڑی جاگیرے توڑ کر سندھ کے بی زمیں کسانوں میں زمینے مفت میں تقسیم کی جائے

. اور سندھ کی زمینوں پر قبضہ کرنے کی سازشیں بند کرنے کا سیمینار میں مطالبہ کیا گیا. عوامی تحریک کے مرکزی صدر ڈاکٹر رسول بخش خاصخیلی، سندھی ھاری تحریک کے مرکزی صدر ڈاکٹر دلدار لغاری، سندھی مزدور تحریک کے مرکزی صدر نور محمد ٹالپر، نذیر لغاری، کالم نویس ادریس لغاری، اسحاق منگریو،

عوامی تحریک کے مرکزی سینیئر نائب صدر عبدالقادر رانٹو، سجاگ بار تحریک کے مرکزی صدر اعتزاز گائینچو، سندھی آبادگار تحریک کے رہنما غلام مصطفی لغاری، اسماعیل خاصخیلی اور دیگر رہنمائوں نیں سیمینار کو خطاب کیا.

عوامی تحریک کے مرکزی صدر ڈاکٹررسول بخش خاصخیلی نے کہا کہ بحریا ٹائون، ڈی ایچھ اے، کمانڈر سٹی اور دیگر غیر قانونی رہائشی منصوبوں کے ذریعی سندھ کی زمینوں پہ قبضہ کر کہ سندھ میں نیا اسرائیل بنانے کی سازش کی جا رہی ہے. غیر ملکیوں کو سندھ کی لاکھوں ایکڑ زمین الاٹ کی جا رہی ہیں. لیکن سندھ کہ بی زمین اور بی گھر کسانوں کو گھر بنانے کے لیئے بھی زمیں نہیں کا ٹکڑا الاٹ نہیں کیا جاتا. اس نے مذید کہا کی عالمی سامراجی قوتیں ملک میں انتہاپسندی کو فروغ دے کے ملک میں دہشتگردی کر رہی ہیں.

کراچی میں ایک نام نہاد مذہبی تنظیم کراچی کوسندھ سے الگ کرنے کی باتیں کر کے آمریکی فنڈنگ سے سندھ میں لسانی اور مذہبی فسادات کروانا چاہتی ہے. لیکن انہین ہم بتانا چاہتے ہیں کی سندھ صوفی شاہ عنایت شہید اور شاہ عبدالطیف بھٹائی جیسے امن پسند اور کسان اور قوم دوست لوگوں کی دھرتی ہے. سندہ کے لوگ دنیا بھر میں امن چاہتے ہیں اور اپنی دھرتی کے انچ انچ کی حفاظت کرنا جانتے ہیں.

سندھی ہاری تحریک کے مرکزی صدر ڈاکٹر دلدار لغاری نے کہا کہ ملک کے حکمران طبقے نے کسانوں کو غلام بنا رکھا ہے۔  حکومت میں کسانوں کی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے کسانوں کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ پانی اور يوريا کی کمی کے باعث کسانوں کی زندگیاں زہر بنادی گئی۔ 

سندھ میں بیروزگاری، بوکھ اور افلاس  کی وجہ سے کسان خودکشی کرتے ہیں لیکن حکومت کسانوں کے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کرتی۔”اکیسویں صدی میں سندھ کے کسانوں کی صورتحال “ سیمینار کی قراردادیںآج اکیسویں صدی میں جہاں دنیا کے کئی ممالک اور خطوں میں سے جاگیرداری، قبائلی اور سرداری نظام کا نام و نشان مٹ چکا ہے. وہاں سندھ اور پاکستان سمیت برصغیر کے کئی

حصوں پر عالمی سامراج کی مرضی کے مطابق اس سائنسی دور میں بھی ایک منظم منصوبہ بندی اور سازش کے تحت انسان دشمن، عوام دشمن، رجعت پرست اور فرسودہ جاگیرداری کے نظام کو مفلس کسانوں کے جسم سے خون چوس کے نکلنے والی خون کی بوتلوں سے اس فرسودہ نظام کو دوام بخشا جا رہا ہے.
جس کے تحت ایک طرف سندھ کے کسانوں، کسان خواتین اور چھوٹے آبادگاروں کے لیے ان کی زندگی کو جہنم بنا کر، انسانی، آئینی، قانونی اور جمہوری حقوق سے ان کو محروم رکھا گیا ہے. کسانوں کو ذاتی قید خانوں میں قید کر کے جانوروں سے بھی بدتر ظلم کرنا، عورتوں کی عصمت دری کرنا، معصوم بچوں سے جبری کام لینا معمول ہے. سندھ میں کسانوں پر ہونے والے ظلم، جبر، کا سلسلہ کبھی بھی کم نہیں ہوا،

بلکہ ہر روز بڑھ رہا ہے. عوام دشمن، کسان دشمن منصوبے کے تحت وڈیروں کی طرف سے کسانوں کو جھوٹے مقدمات میں گھسیٹنا، تشدد کا نشانہ بنانا، زمین کی پیداوار سے کسانوں کو مناسب حقوق نہ دینا، مفت میں کام لینے کا تو جیسے پیروں، میروں، وڈیرا شاہی اور قبائلی سرداروں کو پروانے ملے ہوئے ہیں، معاشی لوٹ مار اور سماجی ناانصافی کے اس جاگیرداری نظام میں کسان عوام کو بھوک، مفلسی، بیماریوں اور لا علمی کی دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے. اور کسان عوام کی جانب سے اپنے خون پسینے کی کمائی کی مانگ کی جاتی ہے

تو ان کو گھروں سے بے دخل کر کے اور گاؤن سے جبری انخلا کروا کے اگلے ہوئے فصلوں پر قبضہ کیا جاتا ہے. دوسری جانب باقی بچی ہوئی کمی پانی کی عدم فراہمی، برساتون، طوفانوں اور ایل بی او ڈی کی تباہیوں نے پوری کر دی. اس صورتحال میں بھی زمینداروں کی جانب سے تباہ حال کسانوں سے قرضے بھی وصول کر دی جاتے ہیں. حکومتی اصلاحات بھی وڈیروں، زمینداروں، بیوروکریٹ کے لیے ہوتے ہیں.
سندھی ھاری تحریک اپنے وجود میں آنے سے لیکر سندھ کی کسان آبادی کے تحفظ سمیت زندگی اور موت جیسے مسائل کے ساتھ ساتھ قومی، طبقاتی اور جمہوری جدوجہد کرتی آ رہی ہے. سندھی ھاری تحریک کے کارکنوں اور رہنماؤں نے ضیائی مارشل لاء کے دور میں صحافت پہ لگی پابندیوں کے خلاف اور آزاد صحافت کے لیے گرفتاریاں دیں. ١٩٧٩ع میں راہوکی میں ہزاروں کسانوں کو یکجا کر کے ضیائی مارشل لاء کو چیلینج کیا.

جس کے نتیجے میں کسان رہنماؤں کو بدین شہر میں سرعام کوڑے لگائے گئے اور گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال کر ٹارچر کر کے عذاب دیے گئے. ١٩٧٣ع کی جدوجہد میں دوسری جمھوريت پسند تنظیموں کے ساتھ مل کر سندھی ھاری تحریک کے کارکنوں اور رہنماؤں نے گرفتاریاں دیں. اور جیلوں میں عذاب جھیلے.

سندھی ھاری تحریک نے وڈیروں، سرداروں، جاگیرداروں کی خانگی جیلوں کے خلاف زبردست اور شاندار جدوجہد کی. سندھ کی لاکھوں ایکڑ زمین غیر مقامی لوگوں کو دینے کے خلاف اور نیلام بند کرو تحریک میں بھرپور حصہ لیا. اس کے سوا سندھ کے پانی پر لگنے والے ڈاکے، سندھ میں غیر مقامی بندوں کو آباد کر کے سندھیوں کو اقلیت میں تبدیل کر دینے والی سازشوں، ڈکٹیٹر جنرل مشرف کے دور میں عدلیہ کی

آزادی کے لیے شروع کی ہوئی جدوجہد میں حصہ لینے سمیت دوسری جمہوری جدوجہدون میں سندھی ھاری تحریک اپنا بھرپور کردار ادا کرتی رہی ہے.سندھی ھاری تحریک کا آج کا یہ سیمینار مطالبہ کرتا ہے کہ٠سندھ کی کسان آبادی کے اوپر ظلم اور زیادتی والا  اپنی معیاد ختم شدہ” جاگيردار اور قبائلی نظام “ فورن ختم کیا جائے. حقیقی زرعی اصلاحات عمل میں لائے جائیں. ساری جاگیریں ختم کر کے ہر کسان خاندان کو ١٦ ایکڑ زرعی زمین، رہائش کے لئے کسان گاؤن، بچوں کے لیے تعلیمی اداروں میں مخصوص داخلے کی سیٹیں، اسکالرشپ، بجلی گیس، روڈ اور علاج کی ساری سہولیات فراہم کی جائے.
٠ سندھ ٹیننسی ایکٹ میں کسان نمائندوں اور قانوندانوں کے مشورے سے اصلاحات لاکے کسانوں اور زمینداروں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ججوں پر مشتمل کسان کورٹیں قائم کی جائیں.
٠ زراعت کو تباہ ہونے سے بچانے کے لیے جامع زرعی پالیسی قیام میں لائی جائے. دریائے سندھ کے پانی پر لگنے والے ڈاکے کو روکا جائے اور سندھ اندر وڈیروں کی جانب سے ناجائز پانی بھانے کا سلسلہ بند کر کے آخری حصے تک پانی پہنچایا جائے.
٠ جعلی بیج، زرعی ادویات، یوریا کی فروخت پر کنٹرول کراکے زراعت کو ترقی دینے کے لیے بجیٹ مختص کی جائے اور اس کا منصفانہ استعمال کیا جائے٠ ملک کے جمھوري پارلیمانی اداروں میں کسان عوام کی کوئی بھی نمائندگی نہیں ہے جب کہ ملک کی اکثریت مزدور، کسان طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے
لیکن ہر جمھوري ادارے سے لیکر انتظامی و مالی اداروں میں سارے لوگ زمیندار، جاگیردار، سردار، خانوں، چودھریوں، ملکوں، پیروں، مخدوموں، قبائلی سرداروں، نوابوں اور سرمائیدارون اور رٹائر سول خواہ ملٹری آفیسروں یا ان کے خاندانوں کا قبضہ ہے. اس سیمینار کا مطالبہ ہے کہ ملک کے سارے اداروں میں کسان عوام کی تعداد کے لحاظ سے نمائندگی رکھی جائے اور اس پر مکمل عمل درآمد کیا جائے.
٠ آج کا یہ سیمنار کسان کے حقوق کے لیے تحریکیں چلانے والے شاھ عنایت شھید، عظیم انقلابی رہنما رسول بخش پليجو، شھید عوام محمد فاضل راہو، کامریڈ حیدر بخش جتوئی، مائی بختاور، قاضی غفار اور دوسرے کسان رہنماؤں اور کارکنوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہے. یہ سیمنار ملک کے سارے سندھ دوست، پورھيت دوست، ترقی پسند دانشوروں، وکیلوں اور سیاسی کارکنوں کو دعوت دیتا ہے

کہ وہ کسانوں، مزدوروں کے حقوق کے لیے جدوجہد اور تحریک میں بھرپور تعاون کریں.
٠سندھ میں غیر قانونی رہنے والے لاکھوں افغانیوں، بھاریوں، برمیوں،ھندوستانیوں، کو وفاقی اور سندھ سرکار کی طرف سے شناختی کارڈ دینے کے اعلانات فورن واپس لیے جائیں. سارے غیر مقامی لوگوں کو ملک سے نکالی دی جائے.
٠ کسان اور چھوٹے آبادگاروں، کے قرضے معاف کیے جائیں. اور فصلوں کو انشورنس کیا جائے.
٠ زرعی جنسوں کے ریٹ مقرر کرنے کا اختیار کسانوں اور آبادگاروں کو دیا جائے٠ غیرت کے نام پر قتل کرنے کی بیہودہ رسم کرنے، لڑکیوں کی جبری رخصتی پر پابندی لاگو کرنے، جرگا کرنے والے قبائلی، سرداروں اور جاگیرداروں پر کیس داخل کر کے عمر قید کی سزائیں دیکے عورتوں کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کے لیے ٹھوس قانونی اقدامات لیے جائیں.
٠ وفاق کے پاس ڈھائی کھاتے رکھے جائیں. جن میں امور خارجہ، خزانہ اور دفاع سے وابستہ مواصلات اور باقی اختیارات صوبوں کو منتقل کر دیے جائیں اور قرارداد پاکستان کی اصل روح کے موجب ملک میں شامل قوموں سے کیے گئے معاہدے پر عمل کیا جائے٠ دریائے سندھ کے پانی پر عالمی، ملکی اور اسلامی قانون کے مطابق سندھی قوم کا حق ہے. دریائے سندھ پر کالاباغ ڈیم، بھاشا ڈیم، سمیت دیگر ڈیم اور کینال بنا کر دریائے

سندھ کے پانی پر ڈاکہ ڈال کر سندھ کو صحرا میں تبدیل کر کے سندھی قوم کو پانی کے قطرے قطرے کے لیے تڑپا تڑپا کے مارنے کی سازش کر کے سندھی لوگوں کی نسل کشی کرنے کی مجرمانہ سازش ہے. کسان، آبادگار اور مختلف مکتبہ فکر سے وابستہ شریک لوگ مطالبہ کرتے ہیں  کہ دریائے سندھ پر کوئی بھی ڈیم یا کینال نہ بنایا جائے. ڈیموں کے لیے اکٹھی کی ہوئی رقم کسانوں اور چھوٹے آبادگاروں میں تقسیم کی جائے.
٠ڈیلٹا تک پانی پہچا کے ملاحوں کے روزگار، لاکھوں ایکڑ پر لگے تمر کے جنگلات کو بچانے کے ساتھ ٹھٹہ، سجاول، بدین کی لاکھوں ایکڑ زمین کو سمندر سے بچانے کے لیے 1945ع کے سندہ- پنجاب پانی معاہدے پر عملدرآمد کیا جائے٠ منگلا اور تربیلا ڈیموں کے بنائے جانے سے ڈیلٹا میں ہوئی تباہی کے بابت عالمی اداروں پر مشتمل کمیشن قائم کی جائے اور ڈیلٹا میں تباہی لانے  والوں کے خلاف قانونی اقدامات لیے جائیں اور ڈیلٹا میں ہونے والی تباہی کا اندازا لگا کر متاثرین کو گھر، زمینیں اور روزگار دیا جائے.
٠ وفاق کے سارے اداروں میں سندھی لوگوں کو برابری کی بنیاد پر نوکریاں دی جائیں اور خاص کر کے کسانوں کے بچوں کو ترجیحی بنیادوں پر دی جائیں٠ سندھ کی پرائمری تعلیم پر برسر اقتدار وڈیرا شاہی نے غیر اعلانیہ پابندی عائد کر دی ہے جس کے نتیجے میں سندھ کے ھزارون پرائمری اسکول بند پڑے ہیں. غیر حاضر اور نہ پڑھانے والے اساتذہ کی تنخواہوں کو بند کر دیا جائے. اور اس کے ساتھ
٠ سندھ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں روز بروز طلبہ کے بڑھتا ہوا رجحان ظاہر کرتا ہے کہ سندھ کی غریب اور مسکین عوام جاگیرداری کے قاتل اور بدبودار نظام سے نکلنا چاہتی ہے لیکن اقتدار پر قابض وڈیرا اور جاگیردار سندھ کی عوام کو اعلیٰ تعلیم دینے کے لیے سنجیدہ نہیں ہے. جس کا مثال سندھ میں نئی یونیورسٹیاں بنانے کے لیے کوئی بھی اقدام نہیں کیا جانا اور تعلیمی اداروں میں گذشتہ کتنی دہائیوں سے ہاسٹلوں کی تعداد وہی ہے.

یہ کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ تھر، بدین، لاڑکانہ، جیکب آباد، گھوٹکی، نوشہرہ فیروز اور دیگر اضلاع میں پبلک یونیورسٹیاں کھولی جائیں اور سندھ یونیورسٹی، ٹنڈو جام یونیورسٹی، شاہ عبدالطيف یونیورسٹی اور دیگر یونیورسٹیوں میں طلبہ اور خصوصاً لڑکیوں کے لیے فوری ہاسٹل تعمیر کرائی جائیں یونیورسٹیوں میں دور سے آنے والے طلبہ جن کو ہاسٹل نہ مل سکے ان کو اسکالرشپز دیے جائیں.
٠ تھر، ڪاڇو، کوہستان، بدین، سجاول، ٹھٹھہ، عمر کوٹ اور میرپور خاص اضلاع سمیت سندھ بھر میں پانی کی مصنوئی قلت کی وجہ سے قحط کی صورتحال پیدا کی گئی ہے.جس کی وجہ سے سندھ کے کسان اپنے بچے فروخت کرنے پر مجبور ہیں. بھوک اور بدحالی کے سبب غریب کسانوں کے نوجوان بچوں کے آپگھات کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے. بیروزگار کسانوں کے روزگار کے لئے سرکاری سطح پر اقدامات لیے جائیں.
٠سندھ کے صنعتی اداروں میں سندھیوں کو اولیت کی بنیاد پر روزگار دیا جائے٠سندھ کے سارے ادارے کرپشن کا شکار ہیں، کرپشن اور اقربا پروری کا خاتمہ کیا جائے٠ سندھ میں شگر ملز وقت پر نہ کھلنے کے سبب ایک جانب گنے کی فصل مزید عرصہ زمین میں کھڑے رہنے کی وجہ سے وزن کم کر جاتی ہے تو دوسری جانب گندم کا فصل اگنے سے رہ جاتا ہے جس کی وجہ سے کسانوں اور آبادگاروں کو معاشی طور پر بہت بڑا دھچکا لگا ہے.

گنے کی شگر ملز وقت پر چلائی جائیں اور گنے کا ریٹ کم سے کم 500 فی من کیا جائے اور چاول کی فصل کا ریٹ 2000 فی من مقرر کیا جائے.٠ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت گاؤن میں پولیس کی سرپرستی میں کچے شراب، گھٹکے، اور دیگر منشیات کی فروخت عام ہے، جس کے باعث خاص طور پر نوجوان نسل تباہ ہو چکا ہے، سندھ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس صاحب اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اعلیٰ اداروں کے سربراہان منشیات کا نوٹس لے اور مجرموں کو گرفتار کر کے عبرتناک سزائیں دی جائیں.
٠ سندھ ہائی کورٹ کے حاضر سروس سینئر ججوں پر مشتمل کمیشن قائم کر کے ایل بی او ڈی اور آر بی او ڈی کی تباھ کاریوں کا اندازہ لگا کے متاثر کسانوں اور آبادگاروں کو معاوضہ دے کر ان کے ساتھ انصاف کیا جائے، سم اور کلر کے بھینٹ چڑھی ہوئی زمین، تباھ شدہ فصلوں خاص طور پر 2010 کے سیلاب متاثرین کو معاوضہ دیا جائے.
پاکستان کی خارجہ پالیسی عالمی سامراجی قوتوں کے حوالے ہوتی رہی ہے جس کی وجہ سے ملک میں انتہاپسندی عروج پر ہے، انتہاپسندی ہزاروں ملکی لوگوں کی جانیں لے چکی ہے. انتہاپسندوں کو مالی طور پر مضبوط کرنے اور الیکشن جتواکے قومی و صوبائی اسمبلیوں پر قابض کرنے سمیت خاص رعایت دی گئی ہیں. ملکی خارجہ پالیسی کو عالمی سامراجی قوتوں کے پنجوڑ سے آزاد کرواکے ملک میں سے انتہا پسندی، دہشتگردی کا مکمل خاتمہ کر کے ملک کے شہریوں کو جانی و مالی تحفظ فراہم کیا جائے.
تھرپارکر میں مسلسل بچوں کا غذائی قلت میں فوت ہونا انتہائی افسوسناک ہے، سندھ حکومت گزشتہ 12 سالوں سے تھر میں معصوم بچوں کی زندگیاں بچانے میں ناکام ہو چکی ہے، تھرپارکر کی سب سے بڑی سے بڑی سرکاری سول ہسپتال جو مٹھی میں ہے، اس میں سندھ سرکار کی بے حسی کی اور لاپرواہی کی وجہ سے عورتوں اور بچوں کی بیماریوں کے ڈاکٹرز مقرر نہیں کیے جا رہے. تھرپارکر میں ڈاکٹروں کی قلت بتا کر بنیادی صحت مراکز اور ڈسپنسریاں بند کی گئی ہیں. بنیادی صحت سینٹرز، ڈسپنسرز، اور سول ہسپتال مٹھی میں ڈاکٹروں کی قلت پوری کر کے تھر کے معصوم بچوں کی جانیں بچائی جائیں.
تھر سے نکلنے والی کوئلے کی آمدنی مقامی لوگوں کی ترقی و خوشحالی پر خرچ کی جائے، تھر کول میں غیر مقامی لوگوں کو نوکریاں دینا بند کر کے اولیت کے بنیاد پر مقامی لوگوں کو روزگار دیا جائے. تھر کے نوجوانوں کو مفت میں ٹیکنیکل تعلیم دینے کے لیے مٹھی میں سرکاری ٹیکنیکل ادارا قائم کیا جائے. تھر کول میں آنے والی زمین مقامی لوگوں سے خرید کرنے کی بجائے مقاطعہ لیز پر لی جائے

اور متاثرہ خاندانوں کو متبادل جگھوں پر گھر بنا کے دیے جائیں، جہاں راستے، بجلی، اسکول، ہسپتالوں اور ہنری سینٹر اور میٹھے پانی کے آر او پلانٹ لگائے جائیں. گوڑاٹو ڈیم سمیت دیگر امکانی ڈیموں کا کارا اور زہریلا پانی نمک کی کانون میں نکال کیا جائے.یہ کانفرنس واپڈا اور ارسا کو صوبائی کاتون میں تبدیل کرنے کے لیے سندھی عوام کے پرانے مطالبے کو دھراتی ہے اور مانگ کرتی ہے

کہ واپڈا اور اور ارسا کے کاتون کو سندھ صوبے کے حوالے کردیا جائے.بحريا ٽاؤن، ڈی ایڇ ای اور دیگر رہائشی اسکیمیں سندھیوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازشیں ہیں. اس لیے یہ اور ایسی دیگر رہائشی اسکیمیں فورن بند کر کے سندھیوں کو اپنے وطن میں بے وطن کرنے کی سازش بند کر دی جائے.
سندھ کی لاکھوں ایکڑ زمین زرعی، رہائشی، دفاعی اور سرمائیکاری کے نام پر سندھیوں سے چھینی گئی ہیں اس لیے عدالتی کمیشن قائم کر کے ایسی زمینوں کی لیزیں رد کر کے سندھ کے بے زمین کسانوں کو دی جائیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں