82

غریب عوام کے امیر حکمران !

غریب عوام کے امیر حکمران !

ُٓپا کستان قدرتی وسائل سے مالہ مال ہے ،اس کے باوجود کشکول ہاتھوں میں تھامے در بدر ہو رہے ہیں ، مالیاتی ادروں کے سامنے سجدہ ریز ہورہے ہیں اور اُن کی ہر جائیز و ناجائز مان رہے ہیں ، جبکہ انہوں نے اب منی بجٹ کا مطالبہ کر دیا ہے ، یہ مطالبہ بھی بلاں چو ں چراں ماننا ہی پڑے گا اور اس کا سارا بو جھ عام عوام پر ڈالنا ہی پڑے گا ،اس کے خلاف عوام کچھ کر پائے ہیں نہ ہی آئندہ کچھ کر پائیں گے،

کیو نکہ اس کے خلاف اٹھنے والی ہرآواز کو دبا دیا جاتا ہے ، دیوار سے لگادیا جاتا ہے اورآئی ایم ایف کی غلامی پر مجبور کر دیا جاتا ہے ،اس غریب ملک کے غریب عوام کو غلاما نہ زندگی گزارنے پر مجبور کر نے والے کوئی اور نہیں ، ہمارے اپنے ہی امیر حکمران رہے ہیں ۔اگر اس غریب ملک کے امیر حکمران اپنے ملک و عوام کے وفادار ہوتے تو آج کشکول تھامے در بدر ہوتے نہ ہی مالیاتی اداروں کی غلامی کر نے پر مجور ہوتے ، بلکہ اپنے ہی وسائل کو بروکار لاتے ہوئے ترقیافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہوتے ،

لیکن ایسا نہ ہو سکا ، کیو نکہ اس ملک کے حکمرانوں نے قو می مفادات کے بجائے ذاتی مفادات کو تر جیح دیا، اس کا ہی نتیجہ ہے کہ سب کچھ ہو تے ہوئے بھی آگے جانے کے بجائے پیچھے جارہے ہیں، لیکن ماننے کیلئے تیار ہیں نہ ہی ذمہ داری قبول کر رہے ہیں کہ اس نہج پر پہچانے کے ذمہ دار ہیں ، اُلٹا دعوئیدار ہیں

کہ ملک کی معیشت مستحکم ہورہی ہے ، مہنگائی میں کمی لائی جارہی ہے اور عوام کی زند گی میں تبد یلی آرہی ہے ،جبکہ آئی ایم ایف نے ہی حکو مت کے معاشی استحکام کے دعوئے مسترد کر تے ہوئے منی بجٹ لا نے کا مطالبہ کر دیا ہے ، یہ آئی ایم ایف کا آخری مطالبہ نہیں ہے ،اس کے بعدمزید مطا لبے ہوں گے اور رواں مالی سال میں ہی دو سے تین منی بجٹ لا ناپڑیں گے۔اس منی بجٹ سیریز سے صرف عام عوام ہی متا ثر ہوں گے کہ جن کیلئے کوئی کام نہیں ہورہا ہے ،حکو مت کی تر جیحات میں عوام نہیں ،

آئینی ترامیم لا نا اور منطور کرانا ہی رہ گیا ہے،جوکہ نہ جانے کس کے حق میں اور کس کے خلاف ہو رہی ہیں ، جبکہ عام عوام کیلئے منی بجٹ لائے جارہے ہیں اور اس کے ذریعے اضافی ٹیکس ہی مسلط کیے جارہے ہیں ،اس منی بجٹ میں ٹیکس گزاروں کو کسٹم دیوٹی ، سلز ٹیکس ،انکم ٹیکس اور دیگر مدات میں اضافی ٹیکس دینا ہو گا ، جبکہ عام آدمی کی آمدن وہی پرانی ہی رہے گی ،اس کو ئی اضافہ ہوتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے ، غریب پر بوجھ در بوجھ ڈال کر مارا جارہا ہے اور اشرافیہ کو ایک کے بعد ایک مر عات دیے کر نوازا جارہا ہے، اس بارے کو ئی پو چھ رہا ہے نہ ہی روک رہا ہے ، کیو نکہ اندر خا نے سارے ہی ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں اور مل کر ایک دوسرے کو سپورٹ کررہے ہیں۔
اس سارے کھیل میں غریب مارا جارہا ہے اورامیر فائدہ اُٹھائے جارہا ہے ،اس کی بڑی وجہ ملک کابوسیدہ نظام اور نااہل حکمران ہیں، جبکہ ان نا اہل آزمائے حکمرانوں کو ہی بار بار لا یا جارہا ہے اور عام عوام کو مجبور کیا جارہا ہے کہ جو تین فیصد لوگ ستانوے فیصد لوگوں کی قسمت کے فیصلے کر کے انہیں لوٹ رہے ہیں ، ان کو ہی مانا جائے ،ان کے ساتھ ہی چلا جائے ، اس ستم طریفی پر کسے وکیل کریں اور کس سے منصفی چاہیں کہ منصف بھی چور سے ہی ملا ہوا ہے ،اور اس کو ہی سہارا دیے رہا ہے ، اس کو ہی بچائے جارہا ہے ،جبکہ قربا نی دینے کیلئے عام غریب ہی رہ گیا ہے ار وہ ہی قربان ہو رہا ہے اور اس وقت تک قر بان ہو تا ہی رہے گا، جب تک کہ اس ظلم کے کلاف تنگ آکر اُٹھ کھڑا نہیں ہو گا۔
یہ امتیازانہ رویہ اور بے انصافی کب تک ایسے ہی چلے گی اور عام عوام کب تک سب کچھ ایسے ہی بر داشت کر تے رہیں گے ، عوام کب تک اپنے ہی اداروں کی بے تو قیری اور لوٹ مار دیکھتے رہیں گے اورظلم و جبر کے ڈر سے کچھ نہیں بو لیں گے ، عوام کے صبر کا پیما نہ لبر یز ہو تا جارہا ہے اور ظلم و جبر کا خوف ختم ہوتا جارہا ہے ، ہر بے انصافی اور لوٹ مار کے خلاف اب عوام آواز اُٹھا نے لگے ہیں ،

ہر ظلم و جبر کے خلاف احتجاج کر نے لگے ہیں، یہ عوام کا حق ہے اور عوام کو اپنا حق مانگ کر نہیں چھین کر حاصل کر نا ہو گا ، پچیس کڑوڑ عوام کے فیصلے چند لوگ بندکمروں میںکر سکتے ہیں نہ ہی عوام کے حق رائے دہی کو نظر انداز کر سکتے ہیں،عوام کے فیصلے کو آج نہیں تو کل مانا ہی پڑے گا اور عوام کے ہی فیصلے کو احترام دینا ہی پڑے گا ، ڈریئے اس وقت سے کہ جب عوام اپنا فیصلہ منوانے کیلئے باہر نکل آئیں گے تو کوئی آزمایا حکمران اقتدار میں رہ پایا گا نہ ہی اس کو تحفظ دینے والا کہیں بھاگ پائے گا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں