نقاش نائطی 57

زکاۃ سے غرباء کی امداد ہی نہیں غربت سے نجات بھی مطلوب ہے

زکاۃ سے غرباء کی امداد ہی نہیں غربت سے نجات بھی مطلوب ہے

نقاش نائطی۔966562677707+

اگر کسی تونگر رئیس کو جب یہ پتا چلتا ہے کہ اس کا کوئی نوکر، دل سے اس کا کوئی کام نہیں کرتا بلکہ صرف مہینے کے آخر ملنے والی تنخواہ کے لئے وقت گزاری کیا کرتا ہے سیٹھ لوگوں کے سامنے تو تندہی سے کام کرتا ہے، لیکن ان کی غیرموجودگی میں ڈیوٹی پر وقت گزاری کرتےاپنی تمام تر صلاحیتوں کو اپنے سیٹھ کی خدمت پر لگانے کے بجائے،صرف ڈیوٹی نبھانے کی حد تک لیپا پوتی کرتا پایا جاتا ہے تو کوئی سیٹھ ساہوکار، ایسے ملازم کو اس کی حقیقت کے ادراک باوجود، اس کے ناز نخرے برداشت کرتے ہوئے، اسکو سر آنکھوں پر بٹھائےکیا رکھے گا؟ یا پہلی فرصت دوسرا کوئی اچھا ملازم ملتے ہی اسے نوکری سے نکال دے گا؟
اللہ نے ہمیں ہماری صلاحیتوں کے فقدان باوجود، جو مال دولت و ثروت ہمیں عطا کی ہے اور اس میں سے ڈھائی فیصد کم از کم زکاۃ کی ادائیگی جہاں فرض کی گئی ہے، وہیں زکاۃ ادا نہ کرنے پر، جہان مختلف وعیدوں سے ہمیں عذاب قبر و محشر سے ڈرایا گیا ہے، وہیں نصاب زکاۃ سے زیادہ صدقات دینے پر اللہ کی طرف سے انعامات اکرامات کی بارش کے طور پر، بعد محشر اعلی و ارفع جنت دئیے جانے کے وعدے بھی سنائے گئے ہیں اور زکاۃ و صدقات صحیح مستحقین تک پہنچانے پر ہمارے نکالے گئے صدقات و زکاۃ کو کئی گنا زیادہ بڑھاچڑھاکر ہمیں آخرت میں انعام و اکرام ملنے کے حسین وعدے بھی گئے ہیں۔
ایسے میں ہم مسلمان تونگر و روساء پہلے تو کہاں، اپنے مال و زر سے پورا پورا حساب جوڑ زکاۃ و صدقات نکالتے ہیں اور جو بھی نکالتے ہیں وہ معاشرے میں اپنی تونگری کا دھاک بٹانے کیلئے، معاشرے کےصاحب حیثیت لوگوں کو خوش کرنے، مدارس و مساجدکو بڑی بڑی رقوم دیتے ہوئے، ایک طرف معاشرے کے اداروں کے عہدے ہتھیاتے پائے جاتے ہیں تو دوسری طرف ان کے آگے پیچھے گھومنے والے،بے ضرورت پشتینی فقراء کی جھولی میں بھیک ڈال اور معاشرے میں اپنے نام نمود کے لئے، فقراء کی بھیڑ اپنے بنگلے کے سامنے جمع رکھوائے، زکاۃ و صدقات کی تقسیم کرتے ہوئے،

ایک طرف پشتینی فقراء کی ہمت افزائی کرتے، ھندو سنگھی،لولے لنگڑے، بہروپیےفقراء کے ہاتھوں جھولیوں میں اپنی زکاة ڈالے،اپنی زکاةادا ہوئی سمجھنے والے،اور ساتھ ہی ساتھ ہم مسلمانوں کی زکاة اینٹھنے اگلے اور منظم انداز غیر مسلم بہروپئیے فقراءکی ہمت افزائی کئے، معاشرے میں فقراء کی تعداد بڑھاتے پائے جاتے ہیں، تو وہیں پر ڈھونڈ ڈھونڈ کر صحیح معنوں عزت دار مستحقین زکاۃو صدقات تک اپنی زکاۃ و صدقات نہ پہنچاتے ہوئے، ان صحیح معنوں مستحقین کو، ظالم معاشرے کے ہاتھوں استحصال کرنے، انہیں چھوڑ رہے ہوتے ہیں
ایسے میں اسلامی معاشرے میں زکاۃ و صدقات منظم جمع کر، ضرورت مندوں تک اسے پہنچانے کیلئے،جب تک مسلم معاشرے میں بیت المال نظام قائم نہیں ہوتا ہے اس وقت تک، بیت المال نظام کی تشبیہ ہی کے طور، مخلص علماء و زعماء کی طرف سے معاشرے کے ضرورت مندوں کی حاجت روائی کیلئےقائم،مختلف ادارے، سو سال سے قائم، مجلس اصلاح و تنظیم بھٹکل، یا جماعت المسلمین کے بیت المال نظام، یا مختلف علماء و زعماء حضرات کی طرف سے قائم کردہ روٹی بینک یا کپڑا بنک یا قوم کی بچیوں کی مالی امداد کر،

انہیں وقت پر رشتہ ازدواج میں منسلک کرنے والے کوئی بھی مخلص ادارے میں، اپنی زکاۃو صدقات جمع کرتے ہوئے ، ایک طرف جہان وہ عنداللہ ماجور و سرخ رو ہوسکتے ہیں وہیں پر، انکے زکاۃو صدقات وقت پر ادائیگی ہی کیلئے غیر ضرورت مند فقراء کی جھولی میں کثیر رقوم ڈالتے ہوئے، مسلم معاشرے میں ہم دانستہ کہ غیر دانستہ فقراء کی افزودگی کرنے سے بچ رہے ہوتے ہیں ۔ جب کہ اللہ کے رسول محمد ﷺ کی بارگاہ میں جب ایک صحابی رسول ﷺ آکر اپنی کم مائیگی کا اظہار کئے، بھیک ہی کی شکل کچھ مدد طلب کی تھی تو آپ ﷺ، کسی بھی صحابی رسول ﷺ کو حکم دے، اس کی اعانت کرسکتے تھے

لیکن آپ ﷺ نے، اس سے پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ ہے؟اس نے کہا، ہاں کچھ چیز ہے آپ ﷺ نے کہا اسے لے آؤ۔ جیب وہ صحابی گھر میں موجود ایک پیالہ لے آئے تو، آپ ﷺنے صحابہ سے پوچھا کیا کوئی اسے خریدے گا؟ ایک صحابی نے کہا یا رسول اللہ ﷺ اسے میں ایک دینار میں خریدونگا۔ اس پر آپﷺ نے پھر پوچھا کوئی اور اسے زیادہ قیمت میں خریدے گا؟ اس وقت دوسرے صحابی رسول ﷺ نے کہا ہاں میں اسے دو دینار میں خریدنے کے لئے تیار ہوں۔ اس پر آپ ﷺ وہ مستعمل پیالہ دو درھم میں اس صحابیوں دے دیا اور دو درھم اس سائل صحابی کے ہاتھ۔یں دیتے ہوئے کہا،ایک درھم سے کچھ کھانا گھر لے جاؤ،اور ایک درھم سے کلہاڑی لے آؤ. اور جب وہ سائل ایک کلہاڑی لے آیا تو آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اس کہلاتی میں دستہ یا ڈنڈا پھنسایا اور اسے دیتے ہوئے کہا کہ پاس کے جنگل میں جاؤ اور لکڑیاں کاٹ لاؤ اور مدینہ کے بازار میں بیچ، اپنے بچوں کی پرورش حلال طریقے سے کرنا شرع کرو۔ اسکا مطلب کیا ہے؟

کہ ہمیں ضرورت مندوں کی جھولی میں بھیک ڈالتے ہوئے، انہیں صدا کا بھکاری بنانا ہے؟ یا انہیں کسی مناسب روزگار پر لگا، انہیں خود کمائی کر،عزت و وقار والی زندگی جینے کا ہنر سکھانا ہے۔ معاشرے میں محنت مزدوری کر، حلال رزق کماتےچھوٹےتاجر، ٹھیلے والوں سے، اپنا سودا سلف خریدتے ہوئے، انکی معشیت کو سہارا دینے کا کام کرانا ہے اور گھر میں بیٹھی عزت دار ماں بہنوں کے محنت مزدوری سے بنائے پکوان خریدتے ہوئے، انہیں معشیتی استحکامیت بہم پہنچانی ہے ۔ پڑوسی ملک بنگلہ دئش کے اپنے وقت کے رئیس اور سوشل ورکر، محمد یونس نے اپنے قائم کردا بینک سے، مائیکرو فائینانسنگ اسکیم” سے مفلوک الحال غریب سے غریب عام مزدور پیشہ لوگوں تک،ان میں موجود صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے یا ابھارتے ہوئے، ان کی ضرورت مطابق کم مقداری قرض، وہ بھی نہایت آسان واپسی اقساط قرض شرائط پر، انہیں دلواتے ہوئے،بنگلہ دیش کی بھیک مانگتی غریب عوام کو روزگار پر لگا،

آپنے وقت کے غریب تر ملک بنگلہ دیش کو اپنی بڑھتی ہوئی جی ڈی پی کے سہارے ،عالم کے خود کفیل، تیز تر ترقی پذیر ملکوں کی صف میں لا کھڑا کرنے میں بڑا اہم رول ادا کیا ہے۔ جس کی تعریف و توصیف ہی کی خاطر، دل نہ چاہتے ہوئے بھی، دشمنان اسلام یہود و نصاری طاقتوں نے 2006 کا نوبل امن ایوارڈ کسی مسیحی یا یہودی کو درکنارکر، ان کے ازلی دشمن مسلمانوں میں سے، بنگلہ دیشی محمد یونس کو دینا پڑا تھا۔ چونکہ بنگلہ دیش تین طرف سے سمندر سے گھرا ہوا ہے اور کئی ایک ندیوں نالوں تالابوں پر انحصار کرتے، بنگلہ دیشی عوام کی اکثریت مچھلیاں شکار کر گزر بسر کرنے کی عادی ہیں ،

اسلئےاس تناظر میں محمد یونس کا کہنا تھا کہ وہ کسی غریب کو، بازار سے مچھلی خرید کر اسے دیتے ہوئے، ایک وقت آسودہ ہو کھانے کے لئے اسے چھوڑنے کے بجائے، بھیک میں کچھ روپئیے اسے دینے پر، قول و عمل رسول اللہ ﷺ ، اسے حلال روزی کما کھانے کی ترغیب دینے ہی کے لئے، مچھلی پکڑنے والا جال اس کے یاتھ میں تھماتے ہوئے، ندی نالے سمندر سے مچھلی پکڑ، نہ صرف اپنے اہل و عیال کی پرورش کرنے پر آمادہ کیا تھا بلکہ مسلم معاشرے میں، ایک مسلم فقیر کی کمی بھی واقع کی تھی۔ اپاہج لولے لنگڑے فقیروں کو سمجھا بجھا کر ،انہیں حلال رزق کی آہمیت جتا ، انہیں حلال رزق سے اپنے بچوں کی پروڑش کیلئے قائل کرتے ہوئے، ایکیسوین صدی کی ابتدا ہی میں، اس وقت موبائل فون ماورائیت کے زمانے میں، گھروں سے نکلے لوگ، اپنے اپنوں سے تعلق برقرار رکھنے،پبلک ٹیلیفون بوتھ پر منحصر جو ہوا کرتے تھے،

ان مجبور و معذور فقراء کو پبلک ٹیلیفون بوتھ لگا کر دئیے ، جہاں معاشرے کی اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت عام لوگوں کو پبلک کال بوتھ مہیا کرواتے ہوئے، انہی معذروروں کو، انکے لئے حلال رزق کمانے کا بندوبست کیا نہیں کیا تھا؟ اور ساتھ ہی ساتھ مفلوک الحال اپنے وقت کے پس ماندہ ترین ملک کو،آج کے ترقی پزیر بنگلہ دیش تعمیر میں بڑا اہم رول نہئں نبھایا تھا؟ آج کے دور میں بنگلہ دیشی مسلم اکثریت ؛ گداگری کو صدا کے لئے خیر باد کہتے ہوئے، چھوٹی موٹی تجارت و صنعت سے منسلک ہوتے، اپنے ملک کو معشیتی ترقی پزیری پر گامزن کئے ہوئے ہے۔

اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں، مدینہ کی تجارت یہودیوں کے ہاتھ میں تھی،وہ اس وقت کے دین ابراہیمی کے پیروکار عربوں کو سود پر قرضہ دئیے، انہیں ہمیشہ سے اپنے زیر نگیں، غیر ترقی یافتہ مفلوک الحال رکھے ہوئے تھے۔ جب اللہ کے رسول ﷺ نے اسلام لانے والے مسلمانوں میں زکاۃ کا نظام رائج کیا تو کچھ عرصہ ہی میں مدینہ میں زکاۃ لینے والے باقی نہ بچے تھے۔چونکہ زکاۃ کے لغوی معنی ہی پاکیزگی یا صفائی کے ہیں ۔ اپنی دولت میں سے زکاۃ نکال، جہاں اپنی دولت کو پاک وصاف ستھرا رکھنا مقصود ہوتا پے وہیں پر زکاۃ کو ایسے منظم انداز مسلم معاشرے میں تقسیم کرنا مطلوب ہوتا ہے

جس سے مسلم معاشرے کی غربت و افلاس و بھیک مانگتی گندگی صدا کیلئے صاف یا ختم ہوجائے ۔ آج مسلم اکثریتی معاشرے میں جتنی زکاۃ نکالی اور تقسیم کی جاتی ہے اس سے مسلم معاشرے میں دست سوال کرنے والے نظر ہی نہیں آنے چاہئیے۔ لیکن اس کے برعکس مسلم اکثریتی معاشرے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ فقراء و مساکین کی تعداد میں اضافہ ہوتا پایا جاتا ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ تقسیم زکاۃ میں ہم مسلمانوں کی عدم دلچسپی ہے۔ہم زکاۃ رقوم کو اچھوت گندگی سمجھتے ہوئے،جلد از جلد اس سے چھٹکارہ چاہتے ہیں اسی لئے سب سے پہلے زکاۃ جس نے طلب کی، اسے زکاۃادا کرتے ہوئے،

اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں جبکہ مسلم معاشرے میں جتنی زکاۃ نکالی اور تقسیم کی جاتی ہے اگر منصوبے کے تحت ضرورت مندوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر، آج کے زکاۃ مستحقین کو کسی پیشہ یا چھوٹی موٹی تجارت سے منسلک کرتے ہوئے، ان میں زکاۃ منظم انداز تقسیم کی جائے، تو معاشرے سے فقراء و فاقہ و تنگ دستی ختم ہوتے ہوئے،پورا مسلم معاشرہ خوشحال ہوتا پایا جاسکتا ہے۔
ہمارے ذاتی تجارت میں اپنی پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، ہم کس قدر ترقیات کے مدارج پارکرتے پائے جاتے ہیں کاش کہ ہمارے تونگر حضرات، اپنی خود کی نکالی لاکھوں کروڑوں کی زکاۃرقوم کو، منظم انداز مسلم معاشرے میں تقسیم کرتے یا کراتے ہوئے، اس کے لغوی معنی ہی کے مصداق معاشرے سے آج کے زکاۃ لینے والوں کو تجارتی راہ پر گامزن کرتے ہوئے، مسلم معاشرے سے بھوک و افلاس و بھیک مانگنے والی گندگی ہی کو پاک و صاف کرتے کیوں نہیں پائے جائیں؟
زکاۃ کا ایک مصرف غریب و نادار مستحقین زکاۃ بچوں کی دینی و عصری تعلیم بھی ہے تاکہ پڑھ لکھ کر، وہ خود معشیتی طور مضبوط ہوتے ہوئے، اپنے اہل خانہ کو بھیک مانگنے سے آمان رکھ پائیں، لیکن معاشرے کے مقتدر علماء کرام کا ایک طبقہ، جہاں معاشرے کے ان روساء سے،اپنے تعلقات کی بنیاد پر،ان سے زکاۃ کا ایک بڑا حصہ حاصل کئے، انہیں معاشرے کے بڑے بڑے مقتدر عہدوں پر براجمان کراتے ہوئے، غیر ضروری عالیشان مدارس و مساجد تعمیرکرتے ہوئے، آپ ﷺ کے بتائے زکاۃ مد میں اور کئی مستحقین کو اس زکاۃ سے محروم رکھے پائے جاتے ہیں۔
زکاۃ کے مصارف 7 ہیں:- فقیر، مسکین، عامل، رقاب، غارم، فی سبیل اللہ اور ابن السبیل۔
1) فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو، یہاں تک کہ وہ کھانے اور بدن چھپانے کیلئے بھی لوگوں سے سوال کا محتاج ہو۔جس کے کاش رات کا کھانا موجود یو تو اسے بھیک مانگنے کسی صورت جائز نہیں ہے۔اس لئے کہ تقدیر ہر بھروسہ کئے اگلی صبح روزگار پر نکلے وہ کچھ کما کر کھاسکتا ہے
2) مسکین وہ شخص ہے جسکے پاس کچھ مال ہے، مگر اتنا نہیں کہ نصاب کو پہنچ جائے۔کمائی سے زیادہ جائز اخراجات والامسکین ہوا کرتا ہے۔ بھلے ہی کسی کی تنخواہ ظاہراً کئی ہزار ہر مشتمل ہو،لیکن اسکے ماتحت زیر مکفول رشتہ داروں کی تعداد کچھ اتنی ہو کہ اسکی آمدنی اسکے جائز اخراجات کے لئے ناکافی ہوتے، اسے ہر ماہ قرضدار ہوتے رہنا پڑتا ہے۔اور معاشرے میں اپنی عزت بخشی قائم رکھے وہ۔کسی اور کے آگے دست سوال نہیں کرتا ہے۔ایسے بظاہر خوش لباس عزت دار مساکین کو اپنے آس پاس اپنے رشتہ داروں میں، اپنے گھر پچھواڑے گلی محلے یا گاؤں دیہات میں۔ڈھونڈ ڈھونڈ اگر کوئی اپنی زکاة ان تک خاموشی سے پہنچاتا ہے تو،وہی زکاة مستحقین کی ضرورت اعتبار سے ہمیں لئیے گنا زیادہ ثواب و اجر دے جاتی ہے۔
3) عامل وہ ہے جسے اسلامی سلطنت میں زکاۃ اور عشر وصول کرنے کیلئے مقرر کیا گیا ہو، اس کو بھی زکاۃ دی جا سکتی ہے۔
4) رِقاب سے مراد ہے غلام کو خرید کر اسے رہا کرانا، لیکن اب نہ غلام ہیں اور نہ اس مدّ میں اس رقم کے صرف کرنے کی نوبت آتی ہے۔ ہاں البتہ اپنے کفر والے معاشرے کو چھوڑ حلقہ بگوش اسلام ہونے والے نومسلموں کے تالیف القلوب ہی کی خاطر انہیں معشیتی طور مستحکم کرنے، اس مد میں زکاۃدی جاسکتی ہے۔اور فی زمانہ اس کفریہ ماحول میں شرپسند اسلام دشمن حکمرانوں کے عتاب کا شکار بنے جیلوں میں زمانے سے سڑ رہے بے قصور یا چھوٹے موٹے قصور کے ساتھ مسلمان ہونے کی پاداش میں پابند سلاسل کئے گئے ہوں، ایسے بے قصور مسلم و غیر مسلم بھائیوں کو، اس جیل سے چھٹکارا دلوانے وکلاء مصارف پر زکاة خرچ کی جاسکتی ہے
5) غارم سے مراد مقروض ہے یعنی اس پر اتنا جائز قرض ہو کہ اسے نکالنے کے بعد نصاب باقی نہ رہے۔ اپنے تعیش پسندی کےلئے، قرض پر قرض لئے، سودی قرض کے بوجھ تلے دبے فی زمانہ ہم مسلمانوں کو، اپنی زکاۃدی جاسکتی ہے یا نہیں، یہ علماء حق سے استفسار کا موضوع ہے۔کیوں کے مسلم معاشرے میں ایسے مفسدین کی لوئی۔کمی نہیں ،ماہ رمضان زکاة وصول کر قرض ادا کرنے کی نیت سے یہ لوگ اپنے تعیش پسندی میں صدا لے مقروض رہا کرتے ہیں۔
6) فی سبیل اللہ کے معنی ہیں راہِ خدا میں خرچ کرنا، اس کی چند صورتیں ہیں مثلاً کوئی شخص محتاج ہے کہ اللہ کی راہ دعوت و تبلیغ کے لئے جانا چاہتا ہے اور اسکے پاس رقم نہیں تو اس کو زکاۃ دے سکتے ہیں۔
7) ابن السبیل سے مراد مسافر ہے، مسافر کے پاس اگر مال ختم ہو جائے تو اس کو بھی زکاۃ کی رقم دی جا سکتی ہے اگرچہ اس کے پاس اس کے اپنے وطن میں مال موجود ہو، لیکن وطن سے مال منگوانے کی کوئی صورت نہ ہو۔ فقط واللہ اعلم
مجلس اصلاح و تنظیم بھٹکل جیسے، سو سالہ مرکزی ادارے میں جہاں زکاۃکی کئی ایک مدات کو ملحوظ رکھتے ہوئے،عزت دار گھرانوں میں ماہانہ راشن پانی پہنچانے کا انتظام کرتے، سالانہ کروڑوں زکاۃ تقسیم کا خاطر خواہ انتظام ہے، کیا ہم اپنی زکاۃ کےایک کثیرحصہ کو، ایسے اداروں میں دیتے پائے جاتے ہیں؟یا نام نمود کیلئے، ہم سے کوئی اور زکاۃ ہتھیانے میں کامیاب ہوتا ہے، اس کا محاسبہ ہمیں خود کرنا ہے۔اللہ ہی ہم مسلمانوں کو اپنے مال ودولت و املاک کی پوری پوری زکاۃ نکالنے اور اسے صحیح مستحقین تک پہنچانے توفیق دے۔
وما علینا الا البلاغ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں