نقاش نائطی 108

معاشرہ ہمیشہ تبدیلی کا خواہاں رہا ہے

معاشرہ ہمیشہ تبدیلی کا خواہاں رہا ہے

نقاش نائطی
۔ +966562677707

اچھائی کی طرف ہو یا برائی کیطرف،رجحان ہمہ وقت، مائل تبدیلی کا خواہاں رہا ہے ۔ایک وقت تھا پورا عالم صاحب امریکہ کے اشارے پر اسکے آگے دم ہلاتا پایا جاتا تھا۔ لیکن دھیرے دھیرے اسکے ظلم کے خلاف لب کشائی ہونے لگی۔ روس و چائینا کے ساتھ سابقہ چالیس سال سے امریکی پابندیوں کے تھک سے گئے ایران نے بھی اپنی بقاء کی جنگ لڑنے، اپنے آپ کو جب امریکی مخالف کیمپ کے حوالے کیا توعالمی سطح اسکی حربی آلات ترقی پزیری شروع ہوتے ہوتے عالم میں اس کی قدر و قیمت بڑھنے لگی۔

عمران خان نے امریکہ کے خلاف “نہیں” “کبھی نہیں” “بالکل ہی نہئں”، کہتے ہوئے جہاں عالمی سطح پر پذیرائی حاصل کی، وہیں پر امریکی تلوے چاٹنے والے ملک و وطن کے محافظان نے، امریکہ کے اشارے پر، اسے جیل کی کال کوٹھری تک جیسی اتنی بڑی سزا دے ڈالی کہ جس سے امریکی کیمپ سے نکلنے والے کچھ بڑے با اثر عرب ممالک جوان سال حکمران بھی شش و پنج کے شکار ہو کر رہ گئے۔

لیکن حالیہ اسرائیل فلسطین تنازع نے امریکی مخالفت کی ہوا کچھ ایسی تیز کردی ہےکہ بعض یورپیں ملکوں کے ساتھ ہی ساتھ خود امریکہ کے اندر مسلم لابی بھی کھل کر، صاحب امریکہ کے آگے سر جھکانے سے انکاری ہوگئی ہے۔ اسی لئے تو عام بدعت حسنہ اسلامی، امریکی مسلم قیادت ہی کی طرف سے، صدر امریکہ کی طرف سے منعقدہ افطار پارٹی میں شرکت سے انکار کرنے پر، مجبوراً صدر امریکہ اپنی افطار پارٹی ہی کو انہیں کینسل کرنا پڑی۔ یہی تو ہونا چاہئیے۔ ورنہ صاحب اقتدار لوگوں کے ڈر یا انہئں خوش کرنے، حالات و ماحول کے خلاف انکے اشاروں پر جی حضوری کرنے بڑے بڑے طرف خان مجبور ہوجاتے ہیں

اور بعد میں ہزار تاویلات سے اپنوں میں صفائی پیش کرتے گھومتے ہیں۔ ابھی کچھ مہینے پہلے بھارت میں رام مندر افتتاحی تقریب میں، آل انڈیا امام آرگنائزیشن سربراہ آمام عمیر الیاسی، رام مندر پوجا پاٹھ اپنی غیر ضروری شرکت پر،ملت کے سامنے، جیسے حیلے بہانے پیش کرتے نظر آئے تھے۔ الحمد للہ امریکی ملی سربراہان نے،اسرائیل کے ساتھ امریکہ انتظامیہ کی طرف سے، فلسطینی نسل کشی مکمل تائید کے خلاف، صدر امریکہ کی طرف سے منعقد کی جانے والی افطار پارٹی دعوت ہی کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے،

صدر امریکہ کو مسلم امہ کے غم و غصہ سے آگاہ کردیا ہے۔ یہ تبدیلی بہت ہی اہم ہے۔ ہم مانتے ہیں امریکہ میں مسلمان اتنی اکثریت میں نہئں کہ انہیں خوش کرنے امریکی انتظامیہ اپنے روایتی یہود حمایت پالیسی پر نظر ثانی کریائے۔ پھر بھی الحمد للہ بالکل کم تعدادرہنے کے باوجود،امریکی مسلمانوں نے، اپنی اہمیت جتا اور بتادی ہے ۔ اس کے لئے ہم امریکی مسلمانوں کے جہاں مشکور ہیں، وہیں اپنے اللہ کی بارگاہ میں دعاگو ہیں کہ پیٹرو ڈالر سے مالامال عرب حکمران بھی عالمی دباؤ کےآگے جھکنے سے انکارکرتے پائے جائیں۔ واللہ التوفئق الا باللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں