بس ایک ہی راستہ ہے ! 58

اب کچھ کرکے بھی دکھائیں !

اب کچھ کرکے بھی دکھائیں !

اس ملک میںہر دور حکومت میں کا بینہ اہم فیصلے کرتی رہی ہیں ، لیکن ان فیصلوں پر کبھی عمل درآمد ہوتا دکھائی دیا ہے نہ ہی اس کے کبھی کوئی نتائج سامنے آئے ہیں، اس بار بھی وزیر اعظم کی زر صدارت نئی کا بینہ نے کچھ اہم فیصلے کیے ہیں اور تو قع کی جارہی ہے کہ ان فیصلوں پر نہ صرف عمل درآمد ہو گا ،بلکہ ان سارے فیصلوں کے موثر نتایج بھی سب کے سامنے آئیں گے ،تاہم عوام آزمائے سے اتنے پرُ اُمید تو نہیں ،جتناکہ انہیں لانے والے پرُ اُمید دکھائی دیتے ہیں ۔
اگر دیکھا جائے

تو اس وقت ملک کو معیشت و امن و امان سمیت بڑے دشوار چیلنجوں کا سامنا ہے، معاشی بحالی کیلئے سرکاری اخراجات میں آخری حد تک کمی، ٹیکسوں کے دائرے میں منصفانہ توسیع اور نجکاری سمیت تمام ضروری اقدامات ناگزیر ہیں، اس حوالے سے ہی کا بینہ اجلاس میں اہم فیصلے کئے گئے کہ جن میں وزیراعظم اور کابینہ ارکان کی تنخواہیں اور مراعات نہ لینا، ایف بی آر کو سو فیصد ڈیجیٹلائز کرنا،

ہوائی اڈوں کی آئوٹ سورسنگ، بجلی اور گیس چوری کے مکمل خاتمہ کیلئے پلان اور عدالتی اصلاحات کیلئے پیکج کی تیاری شامل ہیں،درآمدات اور برآمدات پر پابندیوں کے استثنیٰ کا تعین کرنے کیلئے کمیٹی بنانے اور پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی تشکیل دینے کی منظوری بھی دی گئی ،جو کہ قومی ایئر لائن کی نجکاری کی طرف ایک اہم پیشرفت ہے۔
اس کابینہ نے ادارتی اصلا حات کے ساتھ ملک سے دہشتگردی کے مکمل خاتمے کا عزم بھی کیا ہے، وزیراعظم نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ سرحد پار سے دہشتگردی برداشت نہیں کر سکتے اور اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے ہمسایہ ملک کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل بنانے کی پیشکش بھی کی ہے،وزیراعظم نے معاشی استحکام اور ترقی کیلئے عالمی ماہرین اور سٹیک ہولڈرز کو مشاورتی عمل کا حصہ بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے میثاق معیشت کے ساتھ میثاق یکجہتی کی ضرورت پر زور دیا ہے، انکا کہنا ہے

کہ قرضوں سے بھی جان چھڑانی ہے،لیکن یہاں کو ئی ٹیکس دینے کیلئے ہی تیار نہیں ہے ، ہمارے 2700ارب روپے کے ٹیکس کیسز زر التوا ہیں ،اگر اس کا نصف 1300ارب روپے بھی آجائیں تو ہم کشکول تورنے کے راستے کی جانب چل پڑیں گے۔
یہ حکومت پہلی بار آئی ہے نہ ہی اس کی کا بینہ کے فیصلے پہلی بار ہورہے ہیں ، یہ حکومت جانتی ہے کہ اس کے فیصلوں کے راستے میں کو نسی روکاٹیں حائل ہیں اور انہیں کیسے دور کر نا ہے ، یہ مسائل کی نشاندہی کر نا ،شکوئے شکایت کرنا حکومت کا کام نہیں ہے ، حکومت کا کام مسائل کا تدارک اور شکایت کا ازالہ کر نا ہے ، اس بار حکومت تن تنہا کوئی کام بھی نہیں کررہی ہے ، اس کو ایس آئی ایف سی کی مکمل سپورٹ حاصل ہے جو کہ اپنی افادیت ثابت کر چکا ہے ، اس کے تحت ہی زراعت ،لائیوسٹاک ، معدنیات ،توانائی اور انفار میشن ٹیکنالو جی جیسے اہم شعبوں میں ملکی صلاحیتوں کو بھر پور انداز میں بروئے کار لایا جارہا ہے ، اگر ایس آئی ایف سی سپورٹ کے باوجود آزمائی حکومت اپنے فیصلوں کے نتائج دینے میں ناکام رہتی ہے تو اسے برداشت کرتے رہنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔
اس ملک میں ہر دور حکومت میں آنے والے حکمران نہ صرف درپیش مسائل کا بخوبی ادارک رکھتے رہے ہیں ،بلکہ اس کے سد باب کے دعوئے بھی کرتے رہے ہیں ،جیساکہ اس بار کررہے ہیں ، وہ دعوئے اور وعدے ہی کیا ،جوکہ پورے کر دیے جائیں ، لیکن اگر اس بار ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے سیاسی سطح پر اتفاق رائے سے معیشت کو طویل مدتی بنیادوں پر مستحکم کر نے کا عزم کر لیا جائے تو ملکی معیشت کی کا یا پلٹ بھی سکتی ہے ،لیکن معیشت ہر اتفاق رائے تبھی ہو گا ، جبکہ سیاسی مفاہمت ہو گی ،

اس ملک میں جب تک سیاسی عدم استحکام رہے گا ،معاشی استحکام کا خواب بھی ادھورا ہی رہے گا ،اس جانب بھی وزیر اعظم کوپیش رفت کر نا ہو گی ،اپوزیشن سے بیٹھ کر بات کر نا ہو گی ، سیاسی استحکام لانے کیلئے مل بیٹھ کرمفاہمت کی راہ تلاش کر نا ہو گی ،یہ سیاسی مفاہمت کی راہ ہی صوبوں کو نہ صرف وفاق سے مضبوطی سے جوڑدیے گی ،بلکہ معاشی ترقی و خوشحالی کے نئے سفر کا آغاز بھی کرے گی ، اس ضمن میں اب تک باتیں اور دعوئے بہت ہو چکے ہیں ،اب عملی طور پر کچھ کر دکھانے کا وقت ہے ، اگر یہ وقت بھی ہاتھ سے نکل گیا تو سب کچھ ہی ہاتھ سے نکل جائے گا اور سب ہی خالی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں