بس ایک ہی راستہ ہے ! 78

بس ایک ہی راستہ ہے !

بس ایک ہی راستہ ہے !

اتحادی حکومت بن تو گئی ہے ،مگر اس کو بیک وقت بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے،اس میں سب سے اہم ملکی معیشت کو بحران سے نکالنا ہے،اس حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف کا کہناہے کہ ملک میں معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام نہایت ضروری ہے، غربت، بیروزگاری اور جہالت کے خاتمے کیلئے ملکر ہی جدوجہد کرنا ہوگی، اتحادی معاشی استحکام کیلئے تمام تر اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے کاوشیں کریں گے،لیکن وزیر اعظم کے بیان کے مطابق عملی طور پر ایسی کائوشیں کہیں بھی ہوتی دکھائی نہیں دیے رہی ہیں ۔
اِس بات کو ہر کوئی تسلیم کر رہا ہے کہ ملک میں معیشت صرف اِس صورت میں ہی بہتر ہو سکتی ہے کہ جب ملک میں سیاسی استحکام ہو گا ، مگر یہ استحکام کیسے پیدا ہو گااور کیسے لایا جائے گا،اِس بارے سب ہی کی زبانیں خاموش ہو جاتی ہیں اور کوئی ٹھوس تجویز سامنے نہیں آتی ہیں، اپوزیشن کی واحد جماعت تحریک انصاف کا استدلال ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام صرف اْس صورت میں ہی آ سکتا ہے کہ جب ان کا چھینا گیا مینڈیٹ واپس کر دیا جائے گا ،جبکہ اتحادی حکومت ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہے

کہ کسی کا مینڈیٹ چھین کر انہیں دیا گیا ہے اور اقتدار میں لایا گیا ہے تو پھر کیسے سیاسی استحکام آئے گا اور کیسے معاشی عدم استحکام سے پیچھا چھڑایا جاسکے گا ۔اتحادی حکومت ایک طرف دھاندلی کی تحقیقات کرانے پر رضا مندی کا اظہار کر تی ہے تو دوسری جانب کوئی پار لیمانی یا عدالتی کمیشن بنانے کی کوشش کررہی ہے نہ ہی دوسرا مفاہمت کا کوئی راستہ نکالا جارہا ہے ، کیو نکہ اتحادی حکومت انتہائی خوف زدہ ہے

کہ اگر متنازع انتخابی نتائج کی شفاف تحقیقات کرائی گئیں تو تحریک انصاف برتری حاصل کرلے گی ،جو کہ دو تہائی بھی ہو سکتی ہے تو ایسے میں وہ رسک نہیں لینا چاہتے ہیں کہ فوری تحقیقات کروائی جائیں، مگر اِس عمل کو کب تک ٹالا جا سکتا ہے اور کب تک الیکشن کمیشن کو ساتھ ملا کر اقتدار میں رہا جاسکتا ہے ، اگر متنازع انتخابی نتائج کو غیر معینہ عرصے تک ایسے ہی ٹالنے کی کوشش کی جاتی رہی تو یہ بذات خود ایک سیاسی بے چینی اور مزید انتشار کا ہی باعث بنے گا۔
اس صورتحال میںکچھ سنجیدہ حلقوں کی طرف سے ایک بار پھر اس خواہش کاا ظہار کیا جارہا ہے کہ ملک کی سیاسی قوتیں اپنی اَنا ومفادات سے بالا تر ہو کر ملک کی خاطر ہی مل بیٹھ کر معاملات سلجھا لیں،یہ کوئی ایسی انہونی بات بھی نہیں،

دنیا بھرمیں جہاں جمہوری نظام ہے وہاں معاملات کو افہام و تفہیم سے چلایا جاتا ہے، کم از کم قومی معاملات میں ڈیڈ لاک کو نہیں آنے دیا جاتاہے نہ ہی عوام کی رائے کو تبدیل کرنے کے لئے منفی ہتھکنڈے آزمائے جاتے ہیں،بلکہ عوام کی رائے کو نہ صرف تسلیم کیا جاتا ہے ،بلکہ اس کا احترام بھی کیا جاتا ہے ، لیکن یہاں سب کچھ بر عکس ہورہا ہے ،جو کہ کسی کے مفاد میں بہتر نہیں ہے ۔
اس کا ادارک سب کو ہی ہے اور سب ہی مانتے ہیں،اس لیے ہی بیک ڈور رابطے ہوتے رہتے ہیں، مگر کھل کر ایک دوسرے کو مذاکرات کی دعوت نہیں دی جارہی ہے، حالانکہ ایک بارسب کو ہی ایک جگہ مل بیٹھنا تو چاہئے،

اْس کے بعد جو بھی نتیجہ نکلے، اْسے عوام کے سامنے رکھ کر فیصلے ہونے چاہئیں، موجودہ گومگو کی فضاء کے باعث ملک افواہوں کی زد میں ہے، کبھی حکومت کا چند ماہ ہی چلنے کا شوشہ چھوڑا جارہا ہے تو کبھی دوبارہ انتخابات کی باتیںہورہی ہیں اور کبھی جمہوریت کی بساط ہی لپیٹنے کا عندیہ دیا جارہا ہے، لیکن یہ ان مسائل کا حل نہیں ہے، جو کہ اِس وقت ملک کو درپیش ہیں ،کیونکہ ان سب باتوں سے ملک میں عدم استحکام بڑھ تو سکتا ہے

کم نہیں ہو سکتا ہے۔اس وقت ضرورت اِس امر کی ہے کہ حالات کی بہتری کے لئے ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے اور اس میںتحریک انصاف قیادت کی شرکت انتہائی ضروری ہے، اِس کانفرنس میں سب کی تجاویز سن کر قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے اور اْس کے مطابق مستقبل کے اہداف مقرر کئے جائیں، صرف یہ ہی ایک راستہ ہے، جو کہ ملک میں سیاسی استحکام اور اس کے نتیجے میں معاشی استحکام لا سکتا ہے ، بصورت دیگر بدلتے حالات کا دائرا جدھر گامزن ہے ، وہاں تباہی و بر بادی کے علاوہ کچھ بھی دکھائی نہیں دیے رہا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں